مسائل ہیں کہ بڑھ رہے ہیں۔ موضوعات ہیں کہ بکھرے پڑے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑتی ہے۔ وقت کی قلت ہے۔ مطالعہ کیلئے قلم کاروں کی تحریریں انتظار کر رہی ہیں۔ تحریر کی قدر و قیمت قارئین کے دم قدم سے ہی ہوتی ہے۔
جب پڑھنے والے ہی نہ ہوں تو تحریریں اپنی افادیت کھو دیتی ہیں ذوق مطالعہ ہے کہ تشنہ طلب ہے۔ ادھر نوک خامہ احساسات کو قرطاس کے سینے پر ترتیب دینے کیلئے مضطرب ہوتا ہے کہ محسوسات کا نیا لشکر جرار نازل ہو جاتا ہے۔ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ ترجیحی بنیادوں پر کس موضوع یا کن موضوعات کو اپنے سلسلہ وار کالم میں جگہ دوں۔ ایک طرف فقیر راحموں نے انتہا پسند انہ اور متعصبا نہ نظریات کا پر چار شروع کررکھا ہے تو دوسری طرف عامیانہ قلم کاروں نے اخبارات کے ادارتی صفحوں پر تجاوزات مافیاء کی طرح قبضہ کر رکھا ہے۔ جن سے چھٹکارا نا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔
اداروں کے سر براہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہیں کہ تمہارے کالم نا قابل اشاعت ہیں ابے ! یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔۔۔ ؟ جب فقیر راحموں تعصب کی بدبو سے فضا متعفن کرنے میں جتا ہے۔ تو کیا ایسے میں یقین کر لینا چاہیے کہ کہیں سے معطر ہوا کا جھونکا آئے گا۔ جس سے امن کا دور دورہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔؟ فقیر راحموں تو فتویٰ صار کر چکا ہے کہ سید کی بات نہ ماننے ( حکم عدولی )سے ایمان ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ فقیر راحموں در حقیقت طلب رکھتا ہے کہ اسے پیشوا تسلیم کیا جائے جس طرح کہ ہامان نے غارت گری کو جنت کا اختیار کا اجازت نامہ قرار دے رکھاہے۔ اس غیر مدلل کردار نے دیگر تمام افکار کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ اب تو فقیر راحموں نے بارودی جیکٹ پہن کر پھٹنا شرع کر دیا ہے۔
فتووں کے بم اور خود کش حملے قوم کو مفلوج کرنے کیلئے کافی ہیں تو کیا فالج زدہ جسم تعمیر وطن میں معاون ثابت ہو سکے گا۔۔۔۔؟ فقیر راحموں اور طالبان کے عمل میں مماثلت ہے۔ دونوں کے خلاف آپریشن برائے نجات نامی کی ضرورت ہے۔
Mobile Message
حسب معمول میں نے جب ” موبائل کالم ” بذریعہ موبائل پیغام فقیر راحموں کو بھیجے تو فقیر راحموں نے تعصب کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے جل بھن کر جواب دیا کہ ”منشاء فریدی موبائل پیغامات نہ بھیجا کرو ” ! یہ موبائل پیغامات ان مقاصد کیلئے بھیجے جاتے ہیں کہ مثبت فکر کو عام کیا جائے تا کہ عالم گلاب کی خوشبو سے معطر ہو کر لہلہاتے گلشن میں تبدیل ہو جائے۔
فقیر راحموں کا یہ جواب تکبر کا عکاس ہے۔ تکبر تو ایسی مہلک مرض ہے کہ جس نے شر کو رحمان سے لڑا دیا تھا۔ تکبر ہی تھا جس نے خالق کائنات کی حکم عدولی کی۔ میں ایسے سید اور سید زادے کی بات ماننے اور دلائل سے انکار کرتا ہوں ساتھ ہی اس خوف میں بھی مبتلا ہوں کہ کہیں فقیر راحموں کی فتویٰ سازی کی صنعت ماتم کرتی ہوئی میری طرف پھٹنا نہ شروع کر دے۔ فقیر راحموں نامی کردار ہو بہو ہامان ہے۔ جس نے کبھی جدید فکر اور منطق کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ بس مسلسل تکبر کا شکار چلا آرہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے مجھے تبادلہ خیالات سے سختی کے ساتھ روکا۔ دوسرے لفظوں میں فقیر راحموں کیلئے ”لاٹ صاحب ” کی اصطلاح موزوں ہے۔ کیا میں حق بجانب نہیں ہوں کہ اخبارات میں عامیانہ لکھنے والوں کو بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ جو فقط اپنے منفی نظریات ٹھونسنے کی سعی مسلسل کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟ یہا ں عالمی سطح کے اردو اور سرائیکی شاعر فرید ساجد کا ایک سرائیکی شعر لاٹ صاحب المعروف فقیر راحموں کی خدمت میں پیش ہے تاکہ فکر کی اصلاح ممکن ہو سکے۔
تیڈا میڈا ہے تعلق نا مناسب جانیاں تیڈے ذہنوں خانگی دی غش اتر ی کھیڈسوں
( ترجمہ : اے میرے محبوب ! تیرا اور میرا تعلق نامناسب ہے کیونکہ تیرے ذہن میں تکبر نے گھر کر لیا ہے ۔ جب تیرے ذہن سے تکبر کا نشہ اترے گا تو ایک ساتھ کھیلیں گے ۔) شاید یہ تعلق نامناسب تھا۔ جو میں نے قائم کرنا چاہا۔ پس چہرہ رعونت نظرآئی۔ نہ جانے کیوں لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں۔ روز روشن اور پر نور راتوں کی ضیاء شاہد ہے کہ انسانی حقوق اور تاریخی دلائل ( جو خود کو درست لگتے ہیں ) کی بات کرنے والے فقیر راحموں جیسے قدامت پسند اور مدیران اعلیٰ نے میرے الفاظ کی ترتیب اور کاغذپر مرتب افکار، محسوسات اور جذبات کو شدید نا پسند کیا ہے۔
یہاں میرے افکار و احساسات کی اشاعت کی قومی و بین الاقوامی صحافتی اداروں نے ذمہ داری قبول کر رکھی ہے لیکن یہاں مسلسل فقیر راحموں جیسے انتہا پسندوں کی زدمیں ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ مدیر متعلقہ میرے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔ ۔۔۔۔؟