وزیر ِ بجلی و پانی نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے ہیں کہ لو ڈشیڈنگ کا مسئلہ میں حل نہیں کر سکتا معذرت خواہ ہوں عوام اللہ سے دعا کریں اس سے پہلے وزیر ِاعظم میاں نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کا پاکستان کا نمبرون مسئلہ قرار دیا تھا۔
حکومتی حلقے تو اترسے کہہ رہے ہیں بجلی کے بحران کو حل کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے ایک سال میں کچھ کامیابیاں حاصل کی ہیں گو آج لوگوں کو یہ کامیابی محسوس نہیں ہورہی اگر اسی لگن سے کام ہوتارہاتو مزید ایک سال کے عرصہ میں بجلی کا بحران 50%حل ہونے کی قوی امیدہے لیکن نندی پور پراجیکٹ ٹرپ ہونے پر سب کامیابیاں سوالیہ نشان بن کر قوم کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں۔
ہر حکمران نے قوم کو بجلی کی بچت کا مشورہ دیا لوگوںنے عمل کرتے ہوئے تمام کمروںمیں انرجی سیور لگادئیے رات کو سونے سے پہلے میں تمام گھرکی فالتو لائٹیں آف کرد ینا اچھی بات ہے ویسے بھی فالتو لائٹس کو بند کرنے کی عادت اپنائی جائے تو یہ ہرلحاظ سے اچھی بات ہے ہر شخص بجلی کی بچت کرے تو نہ صرف بل کم آئے گا بلکہ بجلی کی کمی پربھی قابو پایا جا سکتاہے جن گھروںیا دفاترمیں5-4 اے سی ہیں وہ صرف ایکAC بندکرلیں تو گذارہ ہو سکتاہے بحران کوئی بھی ہو۔۔قومی سطح پر ہو یا پھر انفرادی ۔۔۔مجموعی سوچ اور عمل سے اس پرقابو پایا جا سکتا ہے۔
Pak Army
صرف بہترپلاننگ کی ضرورت ہے پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اس میں دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی۔پاک فوج کو کسی بھی لحاظ سے تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیںہماری فوج سرحدوںکی محافظ ہے اور اس کیلئے انہوںنے عظیم قربانیاں بھی دی ہیں کئی سال پہلے میرے ایک دوست کی فیملی راوی سائیفن کی سیرکوگئی تو ایک بچے نے رینجرکے جوان سے پو چھا آپ دن رات چاق و چوبند سرحدوںپر نگاہ رکھتے ہیں کبھی تھکتے نہیں۔۔جوان نے کہا ہم تھکتے اس لئے نہیں تاکہ آپ سکون سے سو سکیں بچہ یہ جواب سن کر تالیاں بجانے لگا دور۔۔۔ کچھ دور نور جہاں نغمہ سرا تھی۔
وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں
ہمارے وطن میں ہر کوئی یہی شکوہ کرتا دکھائی دیتاہے اس ملک نے اسے کیا دیاہے میںکہتاہوں ہم خود کیا کررہے ہیں؟آئیے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر صرف دو منٹ کیلئے سوچیں ہم نے اس ملک کیلئے آج تک کیا کیاہے خود بخود سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔۔۔کیاوہ پاکستانی نہیںجو بجلی چوری کرتے ہیں یا بجلی ،گیس چوری کرواتے ہیں۔ہماری اہم شخصیات اور درجنوں اداروں کے ذمہ اربوں روپے کے واجبات ہیں وہ بقایا جات بھی نہیں دیتے اور ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے ان حالات میں اربوں روپے ریکور کرنے کیلئے عابد شیرعلی کے اقدامات کے سوا اور کون سا راستہ ہے جس سے احسن طریقے سے ریکوری ہو سکے وصولی کا۔۔۔ انگلیاں ٹیڑھی کئے بغیراور کوئی فارمولاہے تو وہ بھی بتابا جائے۔
کچھ واپڈا ملازمین اور آفیسرز ایسے بھی ہیں جو بجلی چوری میں ملوث ہیں میں تو کہتاہوں ایسے کرپٹ لوگوںکو راہ ِ راست پر لانے کیلئے فوجی افسران پر مشتمل ریکوری سیل بنایا جائے اور ارکان ِ اسمبلی کو ان کے کام میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے تو یقین جائیے ملک بھر کے تمام نادہندگان سے ایک ماہ میں واجبات کی ریکوری کی جا سکتی ہے ازمائش شرط ہے۔1974-73ء میں واپڈا کے ریکوری ڈائریکٹوریٹ نے بات چیت سے ریکوری کے معاملات طے کئے جس سے پرانے ریکوری کیسز ختم کردئیے گئے جس سے کروڑوں روپے ریکورہوگئے اب تو چھوٹے کیا۔۔ بڑے کیا زیادہ تر ملازمین اور افسروں کی اکثریت رشوت اور کرپشن میں بہت آگے جا چکے ہیں موجودہ نظام میں اینٹی کرپشن کے ادارے بھی ناکام ہو گئے ہیںیہاں واجبات کی وصولی کا یہ کام خصوصی عدالتیں یا فوجی عدالتیں یہ کام کر سکتی ہیں ۔اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ محاصل وصول کرنے والے سب سے مرکزی ادارےFBRمیں بھی کرپشن موجودہے اس ادارے میں جدید چیک سسٹم قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
آڈٹ میں اچھی شہرت والے، ایماندار اورقابل لوگوںکو مقرر کیا جائے بیشترآڈٹ آفیسر۔۔آڈٹ نہیں اپنے لئے انعامات اور تحائف وصول کرنے جاتے ہیں عوام کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا یہاں تک کہ صوبائی محتسب بھی شکایات کو گول مول کرکے عوام کو بددل کررہے ہیں وفاقی و صوبائی حکومتیں خودتو بڑے بڑے مسائل کی طرف متوجہ ہیں وزیروں، مشیروں اور منتخب نمائیدوںکو پابندکیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ کے عوامی مسا ئل ترجیحی بنیادوںپر حل کروائیں عوام کی طرف سے شکایت پر ان سے بازپرس کی جانی چاہیے۔ بلدیاتی ادارے نہ ہونے سے عوام پریشان ہیں جبکہ متعلقہ محکمے بالکل غافل ہیں صفائی اور نالوںکو صاف کرنے کی طرف کسی کی توجہ نہیں اگلے مہینوں میں برسات کا موسم شروع ہونے والا ہے گلیاں،محلے،سڑکیں کئی علاقے اوران سے ملحقہ آبادیاں جوہڑ بن جائیں گی لوگوںکو نماز ِ تراویح اور سحری کے اوقات میں عوام الناس کو بہت تکلیف ہوگی ان علاقوںمیں تو عام دنوںمیںبھی مکھی ،مچھراور گندگی کی بہتات رہتی ہے برسات کے موسم بدبو،تعفن، کیچڑ کا بھی راج ہوگا ہرسال ایسا ہوتاہے یقینا اس سال بھی یہی کچھ ہوگا یہ صوبائی حکومت کے متعلقہ اداروں اور محکموںکی کھلی بے حسی ہے۔
دیکھنے میں آیاہے ایم پی اے، ایم این اے بھی عوام کے ان بنیادی مسائل کی طرف کم ہی توجہ دیتے ہیںان اصحاب نے تمام تر انحصارمیاں شہبازشریف پر کررکھاہے بلدیاتی اداروںکے انتخابات وقت کی اہم ضرورت ہے امیدہے کہ اسی سال لوکل کونسلروں کا چنائو ہوگا مگر علاقائی حد بندیاں ہی درست نہیں کی گئیں تو سوال یہ پیداہوتاہے پھر بلدیاتی انتخابات کیسے درست ہوسکتے ہیں؟ علاقہ کے نیک نام اور اچھی شہرت رکھنے والوں کو آگے آنا چاہیے یہ بھی خدمت ہے کوئی برائی نہیں عوام کو صحیح راستہ دکھائیں اور بتائیں محض اشتہاری قسم کے لیڈر اور بدکردارلوگ عوام کو سبزباغ دکھارہے ہیںان سے بچ جانا وقت کی ضرورت ہے جن لوگوںنے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا نہ کرنے کا ارادہ ہے وہ بھلا عوام کی کیا نمائندگی کریں گے عوام ان سے بچیں۔آخرمیں خواجہ آصف سے صرف دو باتیں آپ نے لوڈشیڈنگ کامسئلہ حل نہ کر سکنے پر ہاتھ کھڑے کر دئیے قوم کو آپ کی محض معذرت قبول نہیں ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو مستعفی ہو جائیں۔