لوہے کا کلہاڑا

Pakistani Voters

Pakistani Voters

ہم وہی ہیں جن کے بارے کسی نے کہا ہے ”وہ سب سے بڑا منافق ہے جو ظلم تو سہتا ہے پر بغاوت نہیں کرتا ”،پاکستانی ووٹر کو نہیں تو نہیں کہہ سکتا مگر میں وہی ووٹر ہوں منافق ہوں کہ انہیں حکمرانوں کو ووٹ دیتاہوں جو مجھے جوتے مارتے ہیں …..اسکی مثال یہ ہے کہ میں ١٥٩،پی پی اور این اے ١٢٩،لاہور کے حلقہ میں رہائش رکھتا ہوں اِس حلقے میں میاں شہباز شریف کو نہ پہلے کبھی دیکھا اور نہ ہی الیکشن ٢٠١٣ میں حلقے میں کہیں دیکھا اور نہ دونوں حلقوں سے کامیاب ہونے کے بعد آج تک دیکھا ،نہ ہی انہیں یہ توفیق ہوئی کے حلقے کے ووٹر کا شکریہ ہی ادا کرتے اور مگر کیوں اور کس لئے شکریہ ادا کرتے اُس نے کس ووٹر سے ووٹ مانگایاحلقے کے ووٹر سے براہ راست مخاطب ہو کر مسائل پر کوئی بات چیت ہوئی ، اب سوال ہے ووٹ دینے اور لینے کا ، تو اُس کے لئے یہی کہنا ہے۔

لوہے کا کلہاڑا ہوتا ہے جب تک اُس میں لکڑی کا دستہ نہ لگایا جائے وہ بڑے درخت یا کسی چھوٹے کو بھی نہیں کاٹ سکتا تو حلقے میں ہم میں سے لکڑی کے دستے دستیاب ہوتے ،یعنی ان کے چمچے شورے، جو مجھ جیسے بے وقوفوں کو پھسلا کر ووٹ حاصل کر لیتے ہیں ، الیکشن کے بعد پھر یوحنا آباد کے عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا جس دن عمران خان اور طاہر القادری کے جلسے تھے علاقے کے داخلے کے واحد راستے میں سٹیج لگا کر عوام کو پریشان کیا اور وزیرصاحب اور دیگر لکڑی کے دستوں کے ہمراہ تشریف لائے اور گلیوں نالیوں اور پینے کے صاف پانے کے لئے چالیس کروڑ کا اعلان کیا جبکہ اندر کی خبر ہے محض فی ممبر صرف ایک کروڑ ملا، رات گیارہ بجے تک سڑک بلاک رکھی یہ لالی پوپ دے کر چلتے بنے کون ہے۔

جو یہ پوچھے…. اور ہم ان کے پھسلانے پر کسی نمائدے کی بجائے خود ہی اپنے لئے خود پر حکمران منتخب کر لیتے ہیں اب حکمران کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے ،اور وہ اپنی قبیل کے لوگوں کے مسائل اور اُن کے مفادات کے لئے ہمہ وقت کام کرتا ہے اور میاں شہباز شریف کیونکر میرا نمائندہ ہو سکتا ہے وہ ملک کے بہت بڑے تاجر اور صنعت کار ہیں وہ وہی کام کریں گے جو ان کی قبیل کے لئے بہتر سے بہتر ہونگے …اب دیکھیں سابق حکومت کے وزیر آعظم نے جو کے جاگیر دار تھے حلف لیتے ہی گندم کی قیمت میں وہ اضافہ کیا جسکی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اُس وقت بھی قومی اسمبلی اور، سینٹ میں اُس کی قبیل کے لوگ تھے۔

Inflation

Inflation

وہ خاموش رہے کیوں ؟ اسلئے کہ اسمبلیوں میں خواہ صوبائی اسمبلیاں تھی میرا کہیں بھی کوئی نمائندہ نہیں تھا جو میری آواز بنتا کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے مگر سب خاموش رہے …آج مہنگائی کے خلاف آوازیں آرہی وہ لوگ جنہیں عوام نے مسترد کیا ہوتا وہ سینٹر بن جا تے ہیں کہ پارٹی کو بڑا فنڈ جو دیا ہوتا ہے کبھی قومی اسمبلی تک نہیں پہنچے مگر… وہ سب گنگ رہے اور ا ب حکمران بھی جھوٹی تسلی دے رہے ہیں کہ ڈالر ١٠٠ روپئے سے کم سطح پر آگیا اب مہنگائی کم ہو گی عو ام کو ریلیف ملے گی مگر یہ کیسے ممکن ہے؟

کہ غریب تو آٹا وہی ٥٠ روپئے کلو شاپر میں خریدنے پر مجبور ہے کیونکہ گندم کی قیمت ایک ہزار سے بھی زیادہ اور اگر ڈالر کی قیمت بھلے چالیس اور پچاس روپئے تک ہی کیوں نہ گر جائے مگر مہنگائی کم نہیں ہوسکتی یہ بھی سچ ہے پہلی دفع جاگیر دار کو اتنی بڑی جس کا کبھی تصور نہی کیا جا سکتا مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتا اب قیمت کم ہونے دے گا اب دنیا کی کوئی طاقت اِس مہنگائی کو کم نہیں کر سکتی اِس لئے بھی کے ہمارے ملک میں خصوصاً گندم ہی وہ جنس ہے جو خوراک کی تمام اجناس کا محور ہے نہ تو اب گندم کی قیمت کم ہو سکتی ہے اور نہ ہی مہنگائی ،اور یہ قصور کسی کا نہیں ہمارے ملک میں رائج جمہوریت ہی ایسی ہے کہ جس میں صرف سرمایہ دار ہی اک بھاری سرمایہ کاری سے اسمبلی میں پہنچتا ہے۔

جہاں وہ منافع کے ساتھ اپنا سرمایہ واپس لیتا …کیا اسے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ کروڑوں خرچ کرے اور محض ممبر اسمبلی ہی کہ لائے، موجودہ جمہویت منقش زرق برق لباس میں وقت کی بد ترین آمریت ہے ،پاکستان میں رائج الوقت خاندانی آمریت کو جمہو ریت کہنا جمہوریت کی توہین ہے اور جو تجزیہ نگار،کالم نگار اور میڈیا کے لوگ پاکستان کے غریب اوربے آواز عوام کو فریب دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ،یاد رکھیںکل شائد تمہیں بھی …..اور عوام،در اصل یہ تو دو پائے کیڑے مکوڑے غلام در غلام ہیں اِ ن کے لئے کسی کے پاس کوئی …،جناب طار ہر القادری کا اس بات پر زور کہ ریاست بچاؤ ،پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان کا اسرار ہے یہ حکومت چونکہ دھاندلی کی پیدا وار ہے۔

اس سے کسی بہتری کی کوئی توقع عبث، ایسے الیکشن کمیشن کے تحت شفاف الیکشن ممکن نہیںوہ سونامی پر زور لگا رہے ہیں اب پی پی پی کے زرداری صاحب کا کہناہے نظام کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے کندھا دیں گے اور نظام بچائیں گے ،خاندانی جمہوریت اور نظام کو بچائیں گے ،در اصل اس استحصالی نظام میں ان لوگوں کی بقا ء ہے جو صبح شام جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں دوسری طرف ہمارے بعض دینی عناصر بھی اسے مغربی جمہوریت کہہ کر اس کی نفی کرتے ہیں مگر مغرب میں تو کہیں بھی کسی ملک میں خاندانی جمہوریت کا نشان نہیں ملتا جو پاکستان میںرائج ہے۔

پھر بھلا یہ کیسے مغربی…… یہ گلا سڑا نظام اگلے دن کراچی میں جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے کہا…جنا ب یہ گلا سڑا نظام صرف پاکستان میں اور اِس نظام کو ملیا میٹ کرنے میں اہم کردار آمر ضیاء الحق کا ہے اور جماعت اُس میں شریک تھی جب ارکان اسمبلی کو سیاسی رشوت میں کروڑوں کے فنڈ دینے شروع کئے بس یہیں سے اِس نظام نے گلنا سڑنا شروع کیا ،مگر یہی نظام مغربی ملکوں میں وہاں سے اِس کے گلنے کی کبھی آواز نہیں آئی… سوال مغربی یا مشرقی کا نہیں، بلکہ اِسے چلانے والوں کا ۔فیصل آباد کے جلسہ عام میں پی ٹی آئی کے چئیر مین عمران خان نے کہا حکمرانوں نے ساڑھے ٢٢، کروڑ میں ٢ بی ایم ڈبلیو گاڑیاں منگوائی…رائیونڈ کی سکیوٹی کے لئے پولیس کے لئے خرچ ٤٠ کروڑ ہے۔

بتائیں جب آپ عوام کے دئے گے ٹیکس بے تحاشہ بادشاہوں کی طرح بے دریغ خرچ کریں گے تو کیا وہ آپ کو ٹیکس دیں گے …..شائید یہ بات خاں صاحب کے علم میں نہیں کے آ پ بھلے ٹیکس نہ حکمران اپنی ان شاہ خرچیوں کے لئے چپکے سے میری جیب سے آخری روپیہ بھی نکال لیتے ہیں جس کاکوئی حساب نہ کوئی جواب دہی خدا کرے آپ آئیں آپ بھی اِن پالیسیوں کو جاری رکھی گے ….وزیر خزانہ نے یہ انکشاف کہ ملک کی ٥٤ فی صد آبادی خط افلاس سے بھی نیچے زندگی گرانے پر مجبور کتنی خوف ناک صورت حال ،مگر ٹیکس اُس بھی وصول کیا جاتا ہے خواہ اُس کے گھر شام کو بچے بھوکے سو گئے اِس کا نہ کوئی حساب کتاب نہ کوئی۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدر سرحدی