تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی فی الوقت شہر دہلی بے شمار مسائل میں گھرا ہوا ہے۔اور چونکہ یہ ملک کا دارالحکومت ہے لہذا ملک کا ہر چھوٹا اور بڑا مسئلہ راست یا بلاواسطہ شہر دہلی سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں جلسے اور جلوس ہو رہے ہیں تو کہیں پھانسی کا پھندا لگا کر زندہ لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔
کہیں مثبت و منفی بیانات کا شور وغوغاہے تو کہیں بیرون ملک وزیر اعظم کے دوروں پرمتنوع بیانات۔کہیں ترقی اور ڈیولپمنٹ کے پیمانے بیان کیے جا رہے ہیںتو کہیںاُن ہی پیمانوں پر حالیہ شائع شدہ رپوٹس کے چرچے اور حقیقت شناسی کی باتیں ہیں۔کہیں کسانوں کی بدحالی ،فصل برباد ہونے کے چرچے اور فراہم کی جانے والی امداد پر بحث ومباحثے ہیںتوکہیں متاثرہ کسانوں کی لگاتار خودکشی اور خستہ حالی پر تبصرے و تجزیے اور لائیو رپورٹیں۔کہیں بہار اور یوپی کے سیاسی میدان میں جنتا کے نام پر قائم کیے جانے والے پریوار کی باتیں ہیں تو کہیں دہلی میں اہل اقتدار پارٹی کی اندرونی و بیرونی چپقلش کے کھلے عام نظارے۔کہیں حالیہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات و نتائج کی باتیںہیں تو کہیں مہارشٹر کے شہر اورنگ آباد میں ایک نئی پارٹی کی بڑی کامیابی پر سیاسی پنڈتوں کی حیرانی۔کہیںپیپسی آئی پی ایل کے شوقین مختلف گیند بازوں،بیٹسمین اورٹیموں کی صورتحال پر دھواںدھاربحث و مباحثہ میں مصروف ہیںتو کہیں بہار میں آئے تیز رفتار وتباہ کن طوفان اور کاٹھمنڈو کے زلزلہ کے دل دہلانے والی تصاویر و تذکرے۔مزید آگے بڑھیں تو دہلی میں اُن پڑوسی ممالک ،عرب ممالک اورامریکی و یوروپین ممالک پربھی تبادلہ خیال جاری ہے جن سے ملک و اہل ملک کاکسی نہ کسی درجہ میں تعلق ہے۔
بے شمار مسائل کے انبار میں گھرے شہر کے باشندوں کو کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود دہلی کا اپنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے!لیکن یہ بات حقیقت پر مبنی کیسے ہو سکتی ہے؟دہلی تو خود بے شمار مسائل میں مبتلا ہے جنہیں قلم بند کیا جائے تو ایک طویل فہرست سامنے آسکتی ہے۔لیکن فی الوقت جو مسئلہ ہم اٹھانا چاہتے ہیں وہ فضائی آلودگی کا اہم ترین مسئلہ ہے،جس سے اہل دہلی حد درجہ متاثر ہیں۔شاید اسی بنا پر سپریم کورٹ آف انڈیا نے چند روز قبل پندرہ سال پرانی گاڑیوں کے چلانے پر پابندی عائد کی ہے۔اس کے باوجود یہ مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔
فضائی آلودگی کی جانکاری اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فوری معلومات فراہم کرنے والا نظام بھی شروع کیا ہے۔اس نظام سے معلوم ہو گا کہ فضا کتنی خالص ہے یا آلودہ ۔ہندوستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی نے دنیا کے سب سے آلودہ شہر بیجنگ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔نئی دہلی میں فضائی آلودگی کی سطح بیجنگ سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔فضائی آلودگی کا مطلب ہوا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونوآکسائیڈ کی مقدار عالمی ادارہ صحت کی جانب سے طے کیے گئے معیار سے زیادہ ہونا ہے۔آلودگی کامعیار سے زیادہ ہونا اور سانس کے ذریعے کاربن مونو آکسائیڈ، سیسہ اور کیڈمیئم پھیپھڑوں میں جانے کے باعث نہ صرف سانس کی بیماریوں میں حد درجہ اضافہ ہورہاہے بلکہ آنکھوں اور دل کے امراض بھی عام ہوتے جا رہے ہیں۔نئی دہلی میں قائم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر انومیتا رائے چوہدری کہتی ہیں کہ اس شہر نے 2004ء اور 2005ء میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، اب وہ ان سے محروم ہو چکا ہے۔ایک دور میں جب نئی دہلی کی آبادی 9.4 ملین تھی،شہر کو کنٹرول کرنا نسبتاً آسان تھا۔ لیکن اس وقت آبادی16 ملین تک جا پہنچی ہے،جسے کنٹرول کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے۔دارالحکومت کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے 1998سے 2003ء تک ایک کامیاب پروگرام چلایاگیاتھا، جس کے تحت بجلی گھروں کو شہر کے مرکز سے دور منتقل کیاگیا ،بسیں اور رکشے چلانے کے لیے سی این جی استعمال کی گئی، جو ا یندھن کی دیگر اقسام کے مقابلے میں سب سے کم آلودگی پیدا کرتی ہے۔
Air Pollution
وہیں دوسری طرف یالے یونیورسٹی کی تحقیق میںیہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی ہندوستان میںہے ۔تاہم ہندوستانی حکام نے اے ایف پی سے گفتگو کے دوران رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی کی صورت حال بیجنگ سے خراب نہیں ہے۔فضائی معیار کو جانچنے والے ایک سرکاری ادارے ‘سفر’ کے اہلکار غفران بیگ کا کہنا ہے کہ دہلی کے متعلق ایسی رپورٹ پڑھ انہیں حیرت ہوئی۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے تعجب ہے کہ دہلی کے حوالے سے ایسی رپورٹ سامنے آئی ہے ۔ہاں یہ بات درست ہے کہ یہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے لیکن یہ صورت حال بیجنگ سے زیادہ خراب نہیں۔دوسری طرف ہندوستان ٹائمز نے 178 ممالک کے تقابلی تجزیئے کے 9 ماحولیاتی پیرامیٹرز پر مبنی تحقیق کے حوالے سے کہا کہ دارالحکومت نئی دہلی میں لاکھوں گاڑیاں ہیں اور ٹریفک سے پیدا ہونے والی آلودگی کا تناسب 2.5 ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اخبار کے مطابق ہندوستان عالمی ماحولیاتی پرفارمنس انڈیکس کے تمام 32 درجے بھی گر گیا ہے اور آلودگی سے عام ہندوستانی شہری کی صحت بے انتہامتاثر ہو رہی ہے۔فضائی آلودگی کے اثرات انسانی زندگی پر تیزی سے رونما ہو رہے ہیں جس کے نتیجہ میں آئے دن نئی بیماریاں دریافت ہو رہی ہیں۔ فضائی آلودی گی میں جہاں گندگی کے انبار ایک بڑا سبب ہیں وہیںگاڑیوں اور سگریٹ سے نکلنے والادھواں بھی بڑے پیمانہ پرکینسر جیسے موذی امرض پھیلا رہا ہے۔ مزید مختلف ممالک میں ہونے والے ایٹمی دھماکے فضائی آلودگی میں اضافہ کا باعث ہیں۔
پہلے صرف زمین پر ایٹمی دھماکے کیے جاتے تھے لیکن آج کل خلاء میں ایٹمی دھماکے کرنے کا رواج عام ہوگیا ہے۔نتیجتاًفدائی ایٹمی ذرات پوری دنیا کی آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں ۔فضائی آلودگی کے جہاں منفی اثرات انسانوں پر اثر مرتب ہو رہے ہیں وہیں زراعت بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچا پائی ہے۔فضا میں آکسیجن کی کمی سے فصلیں بے جان ہوتی جا رہی ہیں، غذائیت کی کمی واقع ہو رہی ہے اور رہی سہی کسر وہ تیزابی بارشیں پوری کر تی ہیں جن میں فضائی آلودگی شامل ہوکر فصلوں پر برستی ہیں۔حال ہی میں ہونے و الی خلیجی جنگ سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے ۔کویت میں جلتے تیل کے کنوئوں سے جو دھواں اٹھ رہا ہے اس سے انسانی صحت کے ساتھ موسموں پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بارشیں بے موسم اور شدید قسم کی ہو رہی ہیں جس سے انسانی بستیوں میں سیلاب تباہی مچا رہے ہیں ۔یہ تباہی صرف انسانوں ہی کا مقدر نہیں ہیں بلکہ دیگر مخلوقات بھی اس سے بری طرح متاثرہورہی ہیں۔
عالمی ادارہء صحت (WHO) کے مطابق ہوا میں دس مائیکرو میٹر سے کم سائز کے PM10s کہلانے والے ذرات انسانی صحت کے لیے بے انتہاخطرناک ہیں۔ چونکہ یہ انتہائی باریک ذرات انسانی پھیپھڑے تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں اور مستقل اپنی موجودگی ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا انہیں ذرات کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں 1.34 ملین انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں بھی ایسی اموات ہزاروں میں درج کی جا رہی ہیں۔ صورتحال کیپیش نظر جہاں ایک طرفWHOنے ہوا میں اِن ذرات کی زیادہ سے زیادہ مقدار 20 ذرات فی کیوبک میٹر تجویز کی ہے۔ وہیں دوسری طرفنئی دہلی انتظامیہ نے 100 ذرات فی کیوبک میٹر کی قانونی حد مقرر کی ہے۔برخلاف اس کے آج کل اکثر ،شہر دہلی میں 300 ذرات فی کیوبک میٹر ناپے جارہے ہیں۔تجزیہ کی روشنی میںیہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ دارالحکومت دہلی ،کس قدرزہر آلود فضا سے متاثر ہے۔اس کے باوجود سوال یہ اٹھتا ہے کہ اہل علم و دانش کے لیے ‘فضائی آلودگی ‘بھی کیا کوئی مسئلہ ہے یا نہیں؟سوال کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ یہ وہ اہم ترین مسئلہ ہے جس سے نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند،حیوان اور نباتات تک حد درجہ متاثر ہیں۔اس کے باوجود دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگ سعی و جہدکرتے نظرنہیں آتے ۔غالباً اس مسئلہ میں نام و نمود کاحاصل ہونا ایک مشکل ترین عمل ہے لہذا کیونکر اس مسئلہ سے دلگی کی جائے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com