عید منانے کا مقصد کیا ہے ،مقصد ہے اللہ کی خوش نودی اللہ کا شکر ادا کرنا جو اس نے ہم کو نعمتیں دیں ،یہ شکر ہم خوش ہو کر مناتے ہیں خوشی انسانی فطرت ہے ،خوشی کے بے شمار سائنسی،روحانی،جسمانی فوائد ہیں اللہ بھی چاہتا ہے انسان خوش خوش رہے ،مگر ہم کو سوچنا ہے کہ خوشی کیسے منائی جائے،خوشی کا مقصد ہے اللہ کی رضا جو تب ملے گی اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے عید کی خوشیاں منائیں مگر اس بات کا خیال رکھ کر کہ کسی کے لیے وہ غمی کا باعث نہ بنے دوسروں کو خوشیاں دے کر ،خاص کر کم مایہ کو اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کریں تاکہ کوئی خوشیوں سے محروم نہ رہے اسی طرح ہم کو عید کی حقیقی خوشی ملے گی ۔ابو دائود شریف میں روایت ہے
حضور نبی اکرم ۖ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔نیروز) خوشی کرتے تھے ۔آپ ۖنے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ۔عید الفطر ،عید الضحٰی۔ سال میں دو بار عیدین کی نماز کو لازم قرار دیا ہے ۔ان دونوں موقعوں پر دیہات والوں کو شہروں کی طرف آنا چاہیے اور شہر والوں کو شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقات کرنی اور سب کومل جل کر عبادت الہٰی کرنی چاہیے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ ان باتوں پر عمل نہیں ہوتا جس طرح ہونا چاہیے ،اب تو ایک ہی دیہات میں اپنے اپنے فرقے کو اہمیت دی جاتی ہے اور الگ الگ نماز عید ادا کی جاتی ہے
احکامات اسلام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ بنی آدم ایک ووسرے سے لاتعلق نہ رہیں ۔یہ اپنی ہی ذات میں گم نہ ہوں ۔ کہ ایک خدا، ایک رسول ،ایک ہی قرآن ،ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ایک دوسرے سے مل جل کر رہیں ۔ان میں اتحاد ہو اتفاق ہو۔عید اس کی نہیں جس نے نئے کپڑے پہن لئے بلکہ حقیقت میں تو عید اس کی ہے جو عذاب الہٰی سے ڈرگیا ۔ہمارے اسلاف و بزرگان دین نے عید کی خوشی عبادات کی قبولیت کیساتھ مشروط فرمادی ۔ عبادات دو قسم کی ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ،ہمارے ہاں حقوق العباد کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔حالانکہ تمام عبادات کی روح حقوق العباد پر ہی عمل ہے یا ان عبادات کا مقصد ہے۔
اسلام کے نظام عبادت میں ہر لحظہ قربانی کا وجود پایا جاتا ہے یعنی نماز اور روزہ انسانی ہمت اور طاقت کی قربانی ہے ۔زکوٰة انسان کے مال وزر کی قربانی ہے ۔حج بیت اللہ بھی انسان کی ہمت ،مال و زر کی قربانی ہے غرض کہ حقوق اللہ اورحقوق العباد میں بہت سے تقاضے ایسے ہیںجو انسانی قربانی کے مترادف ہیں ۔حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے عید قربان کے دن ہمیں خطبہ دیا آپ ۖ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں آج کے دن نماز پڑھنی چاہیے ۔پھر لوٹ کر قربانی کرنی چاہیے ۔جس نے ایسا کیا اس نے سنت پر عمل کیا اور جس نے ہماری نماز پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر لیا تو وہ قربانی گوشت کی بکری ہے
جس کو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی سے ذبح کر لیا ہے ۔قربانی نہیں ۔(مسلم شریف)انسان کی طرح قربانی کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے چنانچہ قرآن مجید کی مختلف آیات مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی امتِ محمدی ۖ سے قبل امتوں پر بھی لازم تھی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا تذکرہ قرآن حکیم میں ہے۔ اللہ سبحان تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا کہ (مفہوم) اور ہر امت کے لئے ہم نے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں اسکے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر۔اسی طرح بہت سی احادیث میں بھی قربانی کا ذکر ہے۔
حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ ہر صاحب نصاب پر سال بھر میں ایک قربانی واجب ہے ۔(ابن ماجہ)قربانی سنت ابراہیمی:حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ۖ یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ آپ ۖ نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔آپ ۖ سے پوچھا گیا ہمارے لئے ان میں کیا اجر ہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی ہے آپ ۖ سے پوچھا گیا اور خون کے بدلہ میں ؟آپ ۖ نے فرمایا ہر خون کے قطرے کے بدلہ میں ایک نیکی ہے ۔(ابن ماجہ)الحمد اللہ ہماری زندگی میں ایک بار پھر یہ مبارک دن آ رہا ہے ،اس دن کا پیغام ہے
Allah
اللہ واحد کی بندگی،محمد ۖ کی اطاعت ،اور تبلیغ دین کے لیے اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی قوت و صلاحیت ،رشتے ناطے ، قوم و وطن،اپنا مال ،اپنی جان ،اور جان سے عزیز اولاد کی قربانی بھی دینے کے لیے خود کو تیار کرنا ،عہد کرنا ،جن لوگوں میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے اصل میں ان کی عید ہے ۔ہم کو سوچنا چاہیے کیا یہ جذبہ ہمارے اندر موجود ہے ۔قربانی کامطلب کیا ہے اس کا مقصد کیا ہے اس بارے میں اللہ سبحان و تعالی نے قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ (مفہوم)اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ۔ہاں تمہاری پرہیزگاری اس تک بار یاب ہوتی ہے۔ سیدنا فاروق ا عظم رضی اللہ عنہ کے دو ر خلافت میں لوگ عید کے روز کاشانہ خلافت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیر المؤمنین دروازہ بند کر کے زارو قطار رو رہے ہیں لوگ حیرت زدہ ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یا امیر المؤمنین ! آج تو عید کا دن ہے
اس دن خوشی و شادمانی ہونی چاہیے اور آپ خوشی کی جگہ رو رہے ہیں؟سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ لوگو! یہ دن عید کا بھی ہے اور یہ دن وعید کا بھی ۔آج جس کے نماز روزے اور عبادات رمضان قبول ہو گئیں بلا شبہ اس کیلئے آج عید کا دن ہے اور جس کی عبادات رمضان مردود ہو گئیں اس کیلئے آج وعید کا دن ہے۔(اگر اللہ ہم سے راضی ہے تو عید کا دن ہے اور اگر اللہ ہم سے راضی نہیں ہے تو وعید کا دن ہے ہم کو سیلاب اور آئی ڈی پیز کے ساتھ ساتھ اپنے رشتہ داروں ،اور پڑوس میں دیکھنا چاہیے جو غریب ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کرنا چاہیے اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو گی اللہ راضی ہو گا )