میرے ذہن میں جب بھی وطن ِ عزیز کے نام ور دانش ور اور ممتاز علمی و ادبی شخصیت سندھ دھرتی سے تعلق رکھنے والے بلند پایہ تخلیق کار اور قد آور سپوت امریطس پروفیسر ڈاکٹر یوسف خوشک کا نام آتا ہے تو بے ساختہ میرے دل کی اتھاہ گہریوں سے ان کی کامیابیوں ، کامرانیوں اور سرفرازیوں کے لیے ان گنت بے مول اور بے مانگی دعائیں نکلتی ہیں۔ اِس کے وجہ ان سے ذاتی مراسم یا دوستانہ نہیں بل کہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ میری ان کے ساتھ آج دن تک کوئی ایک یا دو منٹ کی مختصر ملاقات بھی نہیں ۔ ان پرخلوص دعائوں کے مہمیز سلسلے کا سبب پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک صاحب کا اپنے عہدہ واختیار کے ساتھ بے نظیر منصفانہ رویہ ، بھر پور اخلاص اور وفاداری ہے ۔ حالانکہ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ وطن عزیز میں کسی بڑ ے عہدے اور اختیار کے مل جانے کو ذاتی مفاد ات ہی سمیٹنے کا ایک بڑا موقع تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب بھی شمعِ مادرِ گیتی کے کچھ دیوانے اور پروانے ڈاکٹر یوسف خشک کی صورت میں ہمیں کہیں نہ کہیں میسر ہیں کہ جن کا وصف ، وطیرہ اور شعارماں دھرتی کے چپہ ، چپہ سے وفا کی شکل میں قائم و دائم ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک کو ایک سال قبل حکومت پاکستان نے فروغِ علم و ادب کے لیے قائم و فاق کے زیرِانتظام چلنے والے ایک بڑے ادارے اکادمی ادبیات پاکستان کا صدر نشین (چیئرمین) مقرر کیا ۔بلاشبہ انھوں نے محض ایک سال کی قلیل مدت میں اس عہدے پر تعیناتی کے دوران ایک انقلاب بپا کر دکھایا ہے ۔ وہ قائد کے فرمان ” کام ، کام اور بس کام” کی عملی تفسیر ہیں ۔ اُن کی شبانہ روز کاوشوں اور ان تھک جدوجہد نے اکادمی ادبیات کو جس طرح ایک مقبول ترین اور عوامی ادارے کا رنگ دیا ہے ماضی میں اس کی نظیر ڈھونڈنا مشکل ہے۔ کوئی بھی با شعور شخص جب ان کی کارکردگی کابغور جائزہ لیتا ہے تو ورطہ ء حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ خیال اور سوچ بھی پیدا ہوتی ہے کہ کاش پاکستان کے تمام اداروں کے سربراہان اپنے فرائض منصبی اسی طرح مخلصانہ انداز میں نبھائیں تو وہ دن ہرگز دور نہیں کہ جب وطن عزیز کے حالات بھی ترقی یافتہ ممالک کے برابر آ کھڑے ہوں ۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے اپنے منصب کا چارج سنبھالتے ہی اکادمی ادبیات پاکستان کے ہر شعبہ میں اصطلاحات کا آغاز کیا ۔
اس ضمن میں سب سے پہلا کام جو انھوں نے کیا وہ انتہائی شان دار اور قابلِ ستائش ہے ۔ ” پاکستانی ادب کے معمار” یہ اکادمی کا وہ شعبہ ہے کہ جس کے زیرِاہتمام ممتاز پاکستانی علمی شخصیات کے علم و فن اور ادباء شعراء کی نگارشات اور ان کے علمی و ادبی شہہ پاروں کو کتابی شکل میں منظر ِ عام پر لایا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس شعبہ کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور اس میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا۔ ایک طویل مدت سے یہ کام سست روی کا شکار تھالیکن اب اس میں عملی سطح پر بر ق رفتاری نظر آنے لگی ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلی کتاب جو شائع کی گئی ہے یہ معروف ادیب آصف ثاقب کے فن اور شخصیت پر ہے ” آصف ثاقب :شخصیت اور فن ” جسے بین الا قوامی شہرت یافتہ شاعر احمد حسین مجاہد نے تحریر کیا ہے ۔
اس کے علاوہ بھی اس شعبہ نے کئی اہم کتب کی اشاعت اور مختلف عالمی معیار اور عالمی سطح کی درجنوں کتابوں کے تراجم کو بھی کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ دوسرا اہم کام انھوں نے یہ کیا ہے کہ وہ شاعر ادیب جو مالی طورپر کمزور اور آسودہ حال نہیںہیں ،جنھیں اکادمی ادبیات کی طرف سے کراس چیک کے ذریعہ سہہ ماہی بنیادوں پر و ظائف بھیجے جاتے تھے انھوں نے ان کے لیے انتہائی آسانی پیدا کر دی ہے ۔ اب یہ رقم آن لائن ان کے اکائونٹ میں ٹرانسفر ہو جاتی ہے ۔ ملک بھر میں بولی اور لکھی جانے والی ایسی کوئی لینگویج اور زبان نہیں کہ جس میں ادب تخلیق ہو رہا ہے اور اسے اس وقت اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم سے پذیرائی نہ مل رہی ہو ۔ ڈاکٹر یوسف خشک کی بطور چیئر مین تعیناتی کے بعد بمشکل ہی کوئی دن ایسا ہوگا کہ جس دن اکادمی ادبیات پاکستان کے ہیڈ کواٹر میں کوئی ادبی تقریب منعقد نہ ہوئی ہو۔وہ ہر وقت اسی منصوبہ بندی میں مصروفِ عمل اور اسی سوچ میں مگن رہتے ہیں کہ کس طرح پاکستان کا علمی عَلم کائنات ِعلم و ادب میں سر بلند کیا جا سکتا ہے۔
وہ اب تک اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اپنی نگرانی اور سر پرستی میں ایک سو کے قریب کانفرسیں ، کتابوں کی تقریب ِ رونمائی اور مختلف زبانوں میں مشاعروں اور مختلف تقریبوں کا انعقاد کرا چکے ہیں جو کہ یقینا لائق ِ صد تحسین ہے ۔ حال ہی میںانھوں نے اپنی بھر پور کوششوں سے اکادمی ادبیات پاکستان میں معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض سے منسوب ” فیض آڈیٹوریم ” کا سنگِ بنیاد رکھا اور اس کا افتتاح وزیر تعلیم جناب شفقت محمود سے کرایا ، مستقبل میں اس زیرِتعمیر آڈیٹوریم میں عالمی سطح کی کانفرنسیں منعقد ہوا کریں گی ۔ کرونا وباء نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کا رخ کیا تو پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے ان مشکل دنوں کو بھی خوبصورت اور یاد گاربنانے کا فیصلہ کیا اور انھوں نے اکابرین ِادب کے ساتھ مل کر یہ طے کیا کہ اکادمی ادبیات کے پلیٹ فارم سے آن لائن مشاعروں اور تقریبات کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ ان مصیبت زدہ دنوں میں جہاں اس بہانے سے مواصلاتی اور برقی نظام کے ذریعے مل بیٹھنے کے مواقع میسر آئیں گے۔
ایک دوسرے کی خیر خبر اور خبر گیری بھی رہے گی وہاں فروغ ِعلم و ادب کا سلسلہ بھی روا ںدواں رہے گا۔کرونا کی پہلی لہر سے ہی یوں تو یہ سلسلہ جاری و ساری ہے لیکن ماہ صیام کی با برکت گھڑیوں میں ماہ صیام کی نسبت سے مختلف زبانوںمیں عالمی حمدیہ و نعتیہ مشاعروں کا آغاز کیا گیا جو تا حال جاری و ساری ہے اس سلسلہ اب تک منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں میں اردو عالمی ، حمدیہ ونعتیہ مشاعرہ ، پنجابی عالمی ،حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، سندھی عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، سرائیکی عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، بلتی عالمی ،حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، بلوچی عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، پشتوعالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، کشمیری زبانوں کا عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ ، پوٹھو ہاری عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ اور بروہوی عالمی ، حمدیہ و نعتیہ مشاعرہ شامل ہیں ۔ڈاکٹر یوسف خشک مختلف ممالک کے ساتھ پاکستان کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کی عالمی سطح پر پذیرائی ، پہچان اور فروغ کے لیے کوشاں ہیں اور اسی تناظر میںوہ کئی ممالک کے ساتھ مختلف معاہدے عمل میں لا رہے ہیں جو کہ اس حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی سلسلے میں ان کی میٹنگز یوکرائن ، چائنہ ، جرمنی ، جاپان اور دوسرے ممالک کے سفیروں اور ذمہ داران کے ساتھ ہو چکی ہیں۔ دعا ہے کہ ڈاکٹر یوسف خشک علم و ادب کے فروغ کے لیے اسی طرح دن رات سر گرمِ عمل رہیں ،اللہ کریم انھیں مزید کامیابیوں اوکامرانیوں سے نوازے اورپاکستان کا نا م عا لمی سطح پر علم ادب کے حوالے سے ہمیشہ سر فراز رہے۔