شفقت بزدار پہلی ملاقات میں شناسا لگا

Prof Shfaqat Buzdar

Prof Shfaqat Buzdar

تحریر: ایم آر ملک
ایک رفیقانہ کشش، سنجیدہ بلوچ افراد کی شخصیت کے حوالے سے میرے ذہن میں ایک مخصوص تصور تھا کہ تونسہ کے اس باسی کی شخصیت سنگلاخ چٹانوں کی مانند کرخت ہوگی وہ سخت سردیوں میں جلد کو چیرتی ہوئی طوفانی ہوائوں کی طرح چنگھاڑتی ہوئی آواز کامالک ہوگا اُس کی گفتگو اور اس کے لہجے میں انتہائی کھردرا پن ہو گا مگراس روز پروفیسر ریاض راہی، ڈاکٹر افتخار بیگ، رانا عبدالرب، شاکر کاشف، ظفر حسین ظفر کے ساتھ گورنمنٹ کالج کی کنٹین پر بیٹھے ہوئے شفقت بزدار سے ہونے والی پہلی ملاقات میں یہ تصور یکلخت باطل ہو گیا۔

عرصہ پہلے میں پڑھتا رہا تو لگا کہ شفقت بزدار جنوبی پنجاب کا اقبال ہے میرا علم بہت چھوٹا ہے ایک ایسے وقت میں جب سرائیکی خطہ کی مائوں نے اپنی ماں بولی کو چھوڑ کر انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنالیا ہے۔اور ہمارے آج میں سرائیکی ادب کے حوالے سے کوئی ادیب یا شاعر سرائیکیت کے بارے میں تاریخی تسلسل ارتقا زبان وبیاں کے مختلف لہجے، مزاحمتی کردار شعرائ، اسلوب وبیان خیالات کی گہرائی، روایات سے باغی شاعری اور اُس کی روحانیت پسندی کے معیار کے بارے میں کچھ علم رکھتا ہے تو وہ شفقت بزدار ہے اور بعض خود ساختہ شاعر سرائیکی شاعری کو اصل شناخت، زبان وبیان، صعوتی تاثرات کو متروک کرکے گولیوں کے ہاتھوں عامیانہ انداز میں پیش کررہے ہیں جبکہ پس منظر میں روایتی ثقافت کے نام ایک کوئی چیز یا منظر دکھائی نہیں دیتا، اس طرح گلوبلائزیشن کے ہاتھوں مارے ان خودساختہ ادیبوں اور شاعروں نے سرائیکی خطہ کی ثقافت کو مٹانے کی بھرپور کاوش کی ہے۔

شفقت بزدار اس ثقافتی اور سماجی پائمال کے حوالے سے برملا اظہار کرتے ہیں شفقت ادب برائے زندگی پر یقین رکھنے والا شاعر ہے سرائیکی خطہ کا ایک نامور محقق اور دانشور ہونے کے باوجود اُس نے خود کو کبھی قومی تشخص کے حوالہ سے الجھانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ انسان دوستی اُن کا عقیدہ ہے ، ان کے نزدیک سیاست، تہذیب وتمدن ، ثقافت، فلسفہ وقانون غرض کہ انسان کے خارجی مظاہر ایک سی عمارت کے مختلف حصے ہیں اور یہ عمارت معاشی رشتوں پر استوار ہوتی ہے نظام معیشت اور ذرائع پیدوار انسان کے مابین رشتوں کو وضح کرتا ہے مذہبی رجحانات کے پس منظر کے باوجود انسانی اقدار کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور اپنی بات عام اور آسان فہم میں بیان کرتے ہیں جس میں انسانیت کے ساتھ محبت اور اخلاص کا اظہار ملتا ہے یہی رویہ اور سادگی اُس روز میں نے پہلی ملاقات میں دیکھیایک ایسادور جب جا بجا ادبی مجاور اپنی خود ساختہ دکانیں سجائے بیٹھے ہیں اور ادب میں بھی جعلسازی کا لیبل اُن کی پیشانی سے کوشش کے باوجود مٹائے نہیں مٹتا۔

Layyah

Layyah

شفقت بزدار جنوبی پنجاب میں ایک ایسا رول ماڈل ہے جس میں حقیقی اور جینوئن تخلیق کار ، عقل وفہم اور خود آگہی کو تلاش کیا جاسکتا ہے تخلیقی سفر کے ساتھ اُن کا نظریاتی سفر بھی جاری ہے کیونکہ کسی خاص نظریے کے ساتھ جڑت رکھ کر وہ خود ایک جامد شخصیت نہیں بننا چاہتے۔اُن کا تصور ہے کہ بھوک کا انسانی زندگی کے ساتھ بنیادی تعلق ہے اور غربت کا خاتمہ ایک مربوط نظام کے ذریعے ممکن ہے۔پہلی ملاقات میں لگا کہ یہ ملاقات ایک بہانہ ہے کیونکہ سوچوں کے سفر میں اب میں تنہا نہیں رہا ضلع لیہ کے ادب نوازدوستوں کیلئے جو جعل سازوں سے ہوشیار رہنا چاہتے ہیں انہیں فکری سانجھ کا ہمسفر شفقت بزدار کی شکل میں میسر ہے جو اپنی میٹھی اور دھیمی زبان میں سرائیکی کے حوالے سے کوئی نیا سبق پڑھا سکے کیونکہ احمد طارق ، جمشید ناشادجیسے دانشور کئی میلوں کے فاصلہ پر بیٹھے ہیں۔

یہ اس عہد کا بہت بڑا المیہ ہے کہ شفقت بزدار ، پروفیسر ریاض راہی ، ڈاکٹر افتخار بیگ جیسے عظیم دانشوروں کے ساتھ مکالمہ نہ ہونے سے ہم انفرادی سطح پر اپنی ذات کی فصیلوں میں قید ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ادب، ثقافت، سماج اور معاشرے انحطاط پذیر ہیں اس کو تحرک دینے اور جاندار بنانے کیلئے تخلیق اور شعور آگہی کی ضرورت ہے ورنہ دونمبریے دانشور، خودساختہ ادبی مجاور ادب کی عمارت میں دراڑیں ڈالتے رہیں گے۔

 M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک