تحریر : ممتاز ملک. پیرس پچھلے دنوں ملک بھر میں ہونے والے امتحانات کا ڈرامہ ساری قوم ہی کیا ساری دنیا نے بھی دیکھا …استادوں اور انتظامیہ نے دھڑلے سے پرچے لیک کیئے اور طلباء نے دل بھر کر نقل بازی کی. گویا تعلیم نہ دی گئی اور نہ ہی حاصل کی گئی. بلکہ تعلیم بھی گاجر مولی کی طرح کھل کر بیچی گئی اور خوب کھل کر خریدی گئی.
اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں طلباء استادوں کی عزت نہیں کرتے . لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پڑھانے والے استاد بھی تو ہوں ،جو استاد بننے کے لیئے تیار ہو کر ہوں .. ہمارے ہاں تو نوے فیصد استاد ہی وہ نہیں ادی کو پیشہ پیغمبراں سمجھ کر اسے اپنا خواب سمجھتے ہوں اور اسی نیت سے استاد بننے کو آئے ہوں.
ہمارے ہاں تو جسے مجبورا نوکری کہیں نہیں ملی تو وہ استاد بن گئے. ویسے ان مجبور استادوں کی کبھی شکلیں دیکھیں ہیں آپ نے … ان کے حلیئے دیکھیں ، ان کی تعلیم دیکھیں، ان کا انداز گفتگو دیکھیں، اور تو اور انکے کھڑے ہونے کا انداز دیکھیں،یہ کیا استاد ہیں؟
شرم آتی ہے ان لوگوں کو استاد کہتے ہوئے،پچھلے زمانے کی مثالیں دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آپ کو جس زمانے میں تعلیم دی سو دی . ان لوگوں کے مطالعے کا شوق ان کی آگہی کو بڑھایا کرتا تھا . لیکن آج کے زمانے کے استادوں کو دیکھیئے جن کے پاس خود علم نہیں … لیکن مر مر کر زندگی میں ایک بار امتحان دیکر پاس ہونے والا انسان کیا استادی کریگا . ساری دنیا میں ہر سال استاد ریفریش کورسز کرتے ہیں . بچوں کو پڑھانے سے پہلے خود اس لیکچر یا سبق کی پوری تیاری کرتے ہیں تب کہیں جا کر بچوں کی کلاس لینے پہنچتے ہیں .
وہ جو کہتے ہیں کہ استاد کا حلیہ اہم نہیں ہوتا . وہ یہ بتائیں کہ حلیہ کیسے اہم نہیں ہے ؟ ہمارے ملک کے ایک تہائی سے زائد سکولز میں بدقسمتی سے …ڈاکوؤں جیسی مونچھوں والے بڑی بڑی توند لیئے گجروں جیسے بے ڈھپے حلیوں والے استاد جو پہلی نظر میں ڈاکو ہی نظر آتے ہیں .دانت تک برش نہیں کرتے .بات تک ڈھنگ سے کرنا نہیں جانتے . یہ کیا تعلیم دینگے اپنے شاگردوں کو . بچے کا پہلا آئیڈیل اس کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں . آپ ایمانداری سے بتائیں ایسے حلیئے اور انداز والے کو آپ اپنے بچوں کا استاد بنانا پسند فرمائی گے . اگر ہاں تو پھر ان کے شاگرد ایسے ہی ہونگے جو کبھی استادوں کو نقل سے روکنے پر انکی ٹانگیں توڑ دیتے ہیں . اور کبھی انکی گاڑی توڑ دیتے ہیں .
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ نقل نہیں کریں گے تو انڈے لیکر آئیں گے امتحان میں …رہی بات صاف ستھرا رہنے کی تو یاد رکھیں یہ کوئی ایسی باتیں نہیں ہیں، جس کے لیئے ہمیں چین جانا پڑے . صفائی ہمارے ایمان کا حصہ ہے. اور ہم پر لازم ہے . صرف چند باتوں پر ہی عمل پیرا ہو کر دیکھ لیجیئے انشاءاللہ نتائج بہت اچھے نکل سکتے ہیں .
*پہلی بات کہ استادوں کو انسانوں کی طرح صاف ستھرا *دانت برش کر کے پیٹ کم کر کے *اپنے ناپ کے کرتا کم گھیر شلوار یا پینٹ سوٹ میں آنے کا پابند کریں. . *ڈیوٹی کے دوران ان کے ہر طرح کے نشے پر( تمباکو پان نسوار وغیرہ وغیرہ) پابندی لگائیں . *استاد کے گالی گلوچ کرنے پر پابندی لگائیں. *ہر استاد بہترین تلفظ کے ساتھ اردو اور انگریزی میں بات کرے. *وقت کی پابندی کریں . *جو مضمون پڑھایا ہے اس کا وہ استاد ماہر ہو . ام ہیڈ ماسٹر کسی بھی وقت استاد کا اچانک امتحان لے سکے . *استاد کا بچوں سے کوئی بھی فرمائش کرنا جرم قرار دیا جائے. *ہر سال چھٹیوں میں استادوں کی ریفریش کلاسز کا اہتمام کیا جائے جس میں اسے بچوں کو پڑھانے کے نئے نئے میتھڈ اور آئیڈیاز دیئے جا سکیں . پھر ان کا ٹیسٹ اور پرچہ بھی لیا جائے . *بچوں کیساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے . *اساتذہ کے ٹریننگ کورس میں بچوں کی نفسیات کا مضمون خصوصی طور پر شامل کیا جائے …..