پیشہ وارانہ جرم

Peshawar Tragedy

Peshawar Tragedy

یہ پشاور نہیں تھا
جو کبھی گلزار رہتا تھا
کہ کھلتی تھیں جہاں وہ ننھی کلیاں باغ میں جس کے
پھر شبنم کے قطروں سے لدے وہ پھول کھلتے تھے
یہ قطعا ہو نہیں سکتا
وہ پشاور کہ ہم سب جس سے واقف ہیں
یہاں یہ کیا ہوا
ہے کیسا آج کا نظّارہ
یہاں اُن شبنمی قطروں کی جگہ خوں کے قطرے ہیں
ابد کی نیند میں سوئے ہوئے معصوم بچے ہیں
جھلستی آگ میں نفرت کی کس نے ایسی وحشت کی
کہاں تک جائے گا اشکوں کا یہ سیلاب دنیا میں
یہ کیسی ماتمی دھن ہے
کفن اوڑھے ہوئے معصوم بچے ہیں
ٰیا خاموشی کفن اوڑھے ہوئے ہے
لبوں پہ تیرتا ان کے تبسم
نہ جانے کس جہاں میں کھو گیا ہے
ہوا ساکت ہے
سوالوں کے سلگتے پیرہن میں
جوابوں کے سمند میں طلب کی جنبشیں ہیں
چہکتے پھولوں کے جگنے کی رُت تھی
انھیں جگنے سے پہلے نیند کی آغوش میں لیکر
ستم برپا کیا کیسا
یہ کیسا معرکہ شر ہے
فضا مرجھا گئی ہے
چہر سو موت کا سناٹا دل کو چیر جاتا ہے
اُداسی کی ردا اوڑھے ہوئے ماحول پر نم ہے
کہاں سے صبر لائیں گی وہ مائیں
چھنا ہے جن سے جینے کا سہارا
خزاں نے لوٹ کر موسم چمن کا
چھپا ڈالا ہے وہ موسم بہاراں
اب اس ویراں چمن میں
سب کے لب پہ آہ و زاری ہے
یہ اتنے پھول جنت کے
چلے اب سوئے جنت ہیں
کہا اب الودواع ائے اہل دنیا
ذرا جلدی کرو
ہماری رب کے آگے حاضری ہے
جس کے آگے ایک دن سب کو پلٹنا ہے
یہ پشاور ہی تھا یا پھر
کسی پیشہ ورانہ جرم کا حصہ ؟؟؟؟

احمد غیور
پٹنہ۔ بہار(بھارت)
رابطہ:+91-9304572368