یہ پشاور نہیں تھا جو کبھی گلزار رہتا تھا کہ کھلتی تھیں جہاں وہ ننھی کلیاں باغ میں جس کے پھر شبنم کے قطروں سے لدے وہ پھول کھلتے تھے یہ قطعا ہو نہیں سکتا وہ پشاور کہ ہم سب جس سے واقف ہیں یہاں یہ کیا ہوا ہے کیسا آج کا نظّارہ یہاں اُن شبنمی قطروں کی جگہ خوں کے قطرے ہیں ابد کی نیند میں سوئے ہوئے معصوم بچے ہیں جھلستی آگ میں نفرت کی کس نے ایسی وحشت کی کہاں تک جائے گا اشکوں کا یہ سیلاب دنیا میں یہ کیسی ماتمی دھن ہے کفن اوڑھے ہوئے معصوم بچے ہیں ٰیا خاموشی کفن اوڑھے ہوئے ہے لبوں پہ تیرتا ان کے تبسم نہ جانے کس جہاں میں کھو گیا ہے ہوا ساکت ہے سوالوں کے سلگتے پیرہن میں جوابوں کے سمند میں طلب کی جنبشیں ہیں چہکتے پھولوں کے جگنے کی رُت تھی انھیں جگنے سے پہلے نیند کی آغوش میں لیکر ستم برپا کیا کیسا یہ کیسا معرکہ شر ہے فضا مرجھا گئی ہے چہر سو موت کا سناٹا دل کو چیر جاتا ہے اُداسی کی ردا اوڑھے ہوئے ماحول پر نم ہے کہاں سے صبر لائیں گی وہ مائیں چھنا ہے جن سے جینے کا سہارا خزاں نے لوٹ کر موسم چمن کا چھپا ڈالا ہے وہ موسم بہاراں اب اس ویراں چمن میں سب کے لب پہ آہ و زاری ہے یہ اتنے پھول جنت کے چلے اب سوئے جنت ہیں کہا اب الودواع ائے اہل دنیا ذرا جلدی کرو ہماری رب کے آگے حاضری ہے جس کے آگے ایک دن سب کو پلٹنا ہے یہ پشاور ہی تھا یا پھر کسی پیشہ ورانہ جرم کا حصہ ؟؟؟؟