تحریر: پروفیسر رفعت مظہر آج لَگ بھگ 9 سال بعد پنجاب کے بارہ اور سندھ کے آٹھ اضلاع میں بلدیاتی الیکشن کاپہلا مرحلہ پایۂ تکمیل کوپہنچ رہاہے ۔لاہور میں بھی بلدیاتی الیکشن کی بدولت آج زبردست گہما گہمی ہے۔ عام اندازہ تویہی ہے کہ نوازلیگ پنجاب میں 60 سے 70 فیصد نشستیں حاصل کرلے گی، دوسرے نمبرپر تحریکِ انصاف ہوگی یاآزاد اُمیدوار ،اِس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ یہ طے ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں کہیں نظر نہیں آئے گی۔ لوگ قطاروں میں لگ کراپنا حقِ رائے دہی استعمال کررہے ہیںاور ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی نااہلیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ بیلٹ پیپرزپر کہیں ”شیر”کی جگہ ”ہیرے” کانشان تو کہیں ”بلّے” کی جگہ ”بکرا”۔ انتخابی فہرستوں میں بھی غلطیوں کی بھرمار۔ کہا جاسکتا ہے کہ ”اِس طرح توہوتا ہے ، اِس طرح کے کاموںمیں”۔
نتائج خواہ کچھ بھی ہوںاللہ سے دعاہے کہ بلدیاتی انتخابات کایہ مرحلہ بخیروعافیت گزرجائے کیونکہ جذبات عروج پرہیں اورسیاسی مخاصمت ذاتی نفرت میں ڈھلتی نظرآرہی ہے۔ الیکشن کیمپین کے دوران ایک ، دو سانحات ایسے ہوئے جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا جیسے ہمارے ”جمہوری رہنمائ” نفرتوںکے الاؤ بھڑکانے میںممد ومعاون ثابت ہورہے ہوں۔ الیکشن کمیشن کے بس میںتو خیرکچھ بھی نہیںکہ اُسے کپتان صاحب نے اتنامتنازع بنادیا ہے کہ اُس کی حیثیت پرکاہ برابربھی نہیںرہی البتہ حکومت امن وامان برقراررکھنے کی اپنے تٔیںبھرپور کوشش کررہی ہے۔
دو دِن پہلے تک توپرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپرزلزلے اوربلدیاتی انتخابات نے ہی قبضہ جمارکھا تھالیکن30 اکتوبرکوکپتان صاحب نے ایسا ”کھڑاک” کیاکہ میڈیاسب کچھ بھول کرعمران خاںاور ریحام خاںکے گرد گول گول گھومنے لگا۔ تحریکِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے یہ بیان داغ دیاکہ عمران خاںاور ریحام خاںمیں طلاق ہوچکی اورریحام خاںبستر بوریاسمیٹ اپنے ”اصلی وطن” برطانیہ سدھارچکیں۔ یقیناََ سونامیے اِس خبرپر حیران بھی ہوئے ہوںگے اورپریشان بھی کہ اُن کی ”بھابی” صرف 9 ماہ بعدہی داغِ مفارقت دے گئیںلیکن ہمیںحیرت نہیں ہوئی کہ پچھلے 2 ماہ سے ایسی ہی خبریںگردش کررہی تھیں۔
Imran Khan
22 ستمبر کو عارف نظامی مستندحوالوں سے یہ خبر”آن ایئر” کرچکے تھے کہ میاں بیوی کے معاملات ”پوائنٹ آف نوریٹرن” پر پہنچ چکے اور اب صرف ”لین دین” کے معاملات باقی ہیں۔ یہ خبری ںبھی گردش کررہی تھیںکہ جہانگیرترین نے 5 کروڑروپے اور اسلام آباد میں ایک فلیٹ کے عوض ریحام خاںسے عمران خاں کی علیحدگی کا معاملہ طے کرلیا ہے ۔یہ بات بھی زبان زدِعام تھی کہ سیاسی معاملات میںریحام خاںکی مداخلت اکابرینِ تحریکِ انصاف کے لیے ناقابلِ قبول تھی اوراِس شادی پرعمران خاںکی بہنوںکی ناراضی کاتو ہرکہ ومہ کوعلم تھا۔ دوسری طرف برطانیہ سے بھی اچھی خبریںنہیں آرہی تھیں اور کہا جارہا تھاکہ عمران خاںکی سابقہ بیوی جمائمہ خاںاور بیٹوںنے اِس شادی کو سرے سے قبول ہی نہیںکیا تھا۔ اِس لیے یہی اندازے لگائے جارہے تھے کہ جلدیا بدیر دونوں میں علیحدگی ہوجائے گی ۔ایسی افواہوں کی کپتان صاحب اورریحام خاںکی طرف سے سختی سے تردیدکی جاتی رہی لیکن بالآخر اندازے لگانے والوں کا کہا ہی سچ ثابت ہوا۔
ریحام خاںسے علیحدگی کے بعدکپتان صاحب نے شایدزندگی میںپہلی دفعہ بہت دردناک اندازمیں یہ ٹویٹ کیاکہ ”سب سے گزارش ہے کہ ہماری ذاتی زندگی کاخیال کریں”۔ ہم سمجھتے ہیںکہ یہ خاںصاحب کی خالصتاََ نجی زندگی کامعاملہ ہے جس پر’ ‘چسکے” لیناانتہائی نامناسب ۔ویسے بھی میرے دین نے حلال چیزوںمیں طلاق کو ناپسندیدہ قراردیا اورمیرے آقاۖکے فرمان کے مطابق شیطان نے بھی اُسی شخص کواپنا نائب مقرر کیا جس نے میاںبیوی میںعلیحدگی کروائی ۔ریحام خاںاور عمران خاںکی علیحدگی خالصتاََاُن کی نجی اورذاتی زندگی کامعاملہ ہے جس پردُکھ کااظہار توکیا جاسکتا ہے لیکن سیاست کی بھینٹ چڑھاکر ذاتی نفرتوںکی آمیزش کسی بھی صورت میں جائز نہیں البتہ الیکٹرانک میڈیااِس سے بے نیازاور تقریباََ ہرچینل دورکی کوڑی لانے میں مگن۔
Reham Khan
کپتان صاحب کی درخواست کے باوجود نیوز چینلز اِس خبر کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کے ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں اور وہ طوفانِ بدتمیزی کہ خُداکی پناہ۔ ہرنیوز چینل پر ”جاسوسی ایجنسیوں”کاسا گمان ہونے لگاہے۔ کوئی اسے عمران خاں کی بہنوں کی نفرت کا شاخسانہ قراردے رہاہے توکوئی جمائماخاں کے حسدکا۔ کوئی یہ کہہ رہاہے کہ ریحام خاں عمران خاں کے قریبی دوستوں کو پسند نہیں کرتی تھی اور جب عمران خاں کی اُس کے قریبی دوست ”مبشر موبی” سے صلح ہوئی تویہ تنازع اتنا بڑھاکہ نوبت طلاق تک جاپہنچی ۔کچھ لوگوں کے خیال میں ریحام خاں عمران خاں کی سیاسی زندگی پراثر اندازہو رہی تھی جسے تحریکِ انصاف کے رہنماء شدید ناپسند کرتے تھے ، اِس لیے عمران خاں نے اپنی سیاسی زندگی بچانے کے لیے ازدواجی زندگی کی قربانی دے دی۔ برطانوی اخبارات کے مطابق ریحام خاںکا ماضی علیحدگی کاسبب بنا۔معاملہ خواہ کچھ بھی ہو، میرادین بہرحال کسی کی نجی زندگی کو کریدنا سخت ناپسند کرتاہے اِس لیے احتیاط لازم۔
میاں نواز شریف صاحب ،آصف زرداری ،بلاول زرداری ،مولانا فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی نے اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو اِس معاملے پر زبان بند رکھنے کی ہدایت دے کر بہت مستحسن قدم اٹھایا۔ اِس ہدایت کے باوجود بھی ”وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں” کے مصداق سیاسی جماعتوں کے کچھ اصحاب حصّہ بقدرِ جثہ ڈالنے میںمگن۔سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر شہلارضا نے کہا ”عمران خاں کی دوسری وکٹ گِر گئی اب ہیٹ ٹرک کی باری ہے۔
اگریہ عمران خاںکا ذاتی اورنجی معاملہ تھاتو پارٹی کی سطح پر اِس کااعلان کیوںکیا گیا”۔ قائدِحزبِ اختلاف سیّدخورشید شاہ نے کہاکہ عمران خاںکی طلاق سے ثابت ہواکہ عمران خاںمستقل مزاج نہیں۔ کچھ اسی قسم کابیان مسلم لیگ نوازکے راناثناء اللہ کی طرف سے بھی آیا۔ اے این پی کے نائب صدرغلام احمدبلور نے کہاکہ جوشخص اپناگھر قائم نہیں رکھ سکاوہ نیاپاکستان بنانے اورپارٹی امورچلانے کادعویٰ کیسے کرسکتا ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشیداحمد بولے ”بڑھاپے کی شادی اوربینک کی نوکری بڑامشکل کام ہے ،سوچ سمجھ کرکرنی چاہیے”۔ مکررعرض ہے کہ اگرسیاست میںنجی زندگیوںکو گھسیٹنے کی رسم چل نکلی توپھر آسمانِ سیاست پرصرف نفرتوںکے الاؤ ہی نظرآئیں گے۔