بو کاٹا

MQM

MQM

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
یہ تو سبھی جانتے تھے کہ حلقہ 246 میں ایم کیوایم کو شکست دینا ناممکنات میں سے ہے کیونکہ اسی حلقے میں ایم کیوایم کے قائدالطاف حسین کا”نائین زیرو”نامی گھرہے اوریہ متحدہ کاقلعہ بھی سمجھاجاتا ہے ۔تجزیہ نگارتو محض اِس انتظارمیں تھے کہ کیا تحریک انصاف اورجماعت اسلامی ابتلاء میںگھری متحدہ کی مقبولیت میں کوئی ڈینٹ ڈال سکتی ہیںیا نہیں؟۔ مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی عقلمند نکلیں کہ انہوں نے یہ حلقہ کھلا چھوڑ دیا،جماعت اسلامی گزشتہ تیس سالوںسے اسی حلقے سے انتخاب لڑتی چلی آرہی ہے اِس لیے اُس کاضمنی الیکشن میں حصّہ لینابنتا تھا لیکن ہمارے کپتان صاحب کوپتہ نہیں کیا سوجھی کہ وہ بھی اپنے ”ہلّے گُلے ”کے ساتھ میدان میںآ ن کودے،بہانہ یہ کہ کراچی میں چھائی ہوئی خوف کی فضاء کاخاتمہ مقصودہے ۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹارگیٹڈ آپریشن کی بناپر خوف کاکافی حدتک خاتمہ ہوچکاتھا

اوریہی وجہ تھی کہ تحریکِ انصاف کوحلقہ246 میں”کھل کھیلنے”کا موقع ملاوگرنہ 2013ء کے الیکشن میں تو تحریک انصاف کواس حلقے سے پولنگ ایجنٹ بھی میسرنہ تھے۔ حیرت ہے کہ جب پولنگ ایجنٹ میسرتھے نہ ڈی جے بَٹ تب تحریکِ انصاف 32 ہزار ووٹ لے گئی اوراب ”دھوم دھڑکے” کے باوجود صرف 24 ہزار ۔2013ء کے انتخاب میںجماعت اسلامی نے ووٹنگ کے صرف 2 گھنٹے بعدکراچی الیکشن کابائیکاٹ کردیا اِس کے باوجود بھی اُس کے حصّے میں دَس ہزارووٹ آئے اور اب بائیکاٹ نہ کرنے کے باوجود بھی وہی 10 ہزار ۔یہ ضمنی الیکشن متحدہ قومی موومنٹ نے مہاجر قومی موومنٹ بن کر لڑا اور تحریکِ انصاف سے چارگُنا زیادہ ووٹ لے گئی ۔2013 ء کے الیکشن میںبھی ایم کیوایم نے چارگُنا ہی زیادہ ووٹ لیے تھے ۔تب بقول نبیل گبول پولنگ سٹیشن خالی پڑے تھے ، جہاںصرف متحدہ ہی کے کارکن تھے جو ”ٹھپے” لگارہے تھے لیکن اب توپولنگ سٹیشنز پرسی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب تھے اوراندر باہر رینجرز کامکمل کنٹرول بھی۔

ایسا زبردست انتظام کہ پرندہ بھی پَرنہیں مارسکتا تھا اِس کے باوجود بھی نتیجہ تووہی آیااور ووٹوںکا تناسب بھی وہی جو 2013ء میںتھا۔کپتان صاحب کہتے ہیںکہ ایم کیوایم نے گزشتہ الیکشن میں ایک لاکھ ینتالیس ہزارووٹ حاصل کیے تھے ۔تب اگراس نے دھاندلی نہیں کی تھی تواب اِس کے ووٹوں میں 45 ہزارکی کمی کیوں؟۔ درجوابِ آںغزل بھائی رؤف طاہرنے اپنے کالم میںلکھا ”تب ٹَرن آؤٹ 55 فیصد کے لگ بھگ تھاجو اِس بار 35 فیصد رہا اور یہ بھی کہ اُس وقت ایم کیوایم کے مخالف (تحریک اورجماعت) کے مجموعی ووٹ 43 ہزارتھے ،اب یہ 33 ہزارکیوں”؟۔ ہمارے کپتان صاحب بڑے ”حسابی” ہیں ۔وہ گزشتہ دو سالوںسے یہ ”رَولا”ڈال رہے ہیںکہ 2008ء کے الیکشن میں نوازلیگ کے 75 لاکھ ووٹ تھے جو 2013ء کے الیکشن میں ”دوگنے” ہوگئے ۔پَس ثابت ہواکہ منظم دھاندلی ہوئی۔ جب اُن سے یہ پوچھاجاتاہے کہ2002ء کے الیکشن میں تو تحریکِ انصاف کے ایک لاکھ بیس ہزار ووٹ تھے ج،وہ 2013ء کے الیکشن میں بڑھ کر”بہتر گُنا” کیسے ہوگئے ؟ توخاںصاحب تیوریاںچڑھا کرکہتے ہیں کہ چھَڈیار !مخول نہ کراورمحترمہ شیریں مزاری تو مرنے مارنے پہ تل جاتی ہیں۔

Imran Ismail

Imran Ismail

تحریکِ انصاف کے ہارنے والے امیدوار عمران اسماعیل کہتے ہیںکہ تحریکِ انصاف ایم کیوایم سے ہارکر بھی جیت گئی کیونکہ اُس نے خوف کی فضاء ختم کی ۔ خوف کی فضاء کے خاتمے کا دعویٰ تو نوازلگ بھی کرتی ہے،سوال مگریہ ہے کہ کراچی میںجاری آپریشن ،نائن زیروپر چھاپے اورٹاگٹ کلرزکی گرفتاری کے باوجود کیاایم کیوایم کمزورہوئی یااُس کی مقبولیت پر کوئی ڈینٹ پڑا ؟۔واضح اورقطعی جواب یہی کہ اِس الیکشن نے یہ ثابت کردیا کہ ہم لاکھ ایم کیوایم پرٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری اور عسکری ونگزکا الزام لگائیں، کراچی، خصوصاََ حلقہ 246 کے عوام اُس سے متنفر نہیں ۔اگرجمہوریت کے حوالے سے دیکھاجائے تواِس میں”بندوںکو گنا کرتے ہیں ،تولا نہیں کرتے۔

گنتی میں بہرحال ایم کیوایم اب بھی آگے ہے ،بہت آگے ۔تحریکِ انصاف کے ہلّے گُلے اور شورشرابے کے باوجودایم کیوایم تحریکِ انصاف سے چارگُنا زیادہ ووٹ لے گئی۔خوب کہا جیتنے والے کنورنوید جمیل” تحریکِ انصاف کے لوگ توکراچی میں ”میلے ٹھیلے”کے لیے آئے تھے ”۔محترم عمران خاںنے ایم کیوایم کے زیرِاثر کراچی کے عوام کو ”زندہ لاشیں”قرار دیاتھا ۔لیکن اُن ”زندہ لاشوں” نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ اُن کی ہر”قبر” کاہرراستہ نائن زیروپر ہی جاکر ختم ہوتاہے۔ ایم کیوایم کی کامیابی سے اِس تاثرکی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں کوئی منظم دھاندلی ہوئی ہوگی کیونکہ اِس ضمنی انتخاب سے تویہی ظاہرہوتا ہے کہ ضمنی انتخاب میں حصّہ لینے والی سیاسی جماعتوںکے مینڈیٹ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

Judicial Commission

Judicial Commission

اِس صورتِ حال میں جوڈیشل کمیشن کے سامنے تحریکِ انصاف کاکیس کمزورہوا ہے۔ویسے بھی تاحال توتحقیقاتی کمیشن کے پاس کوئی واضح ثبوت نہیں پہنچا ۔تحریکِ انصاف کو ثبوت جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی لیکن اُس نے 15 اپریل کو داخل کروانے والے نکات کی ہی وضاحت کے بعدوہی جواب دوبارہ داخل کروادیا جس پرجسٹس امیر مسلم ہانی صاحب نے کہاکہ یہ تو محض گزشتہ نکات کی وضاحت ہے کوئی نئی بات نہیں۔محترم چیف جسٹس ناصرالملک نے تحریکِ انصاف کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ سے پوچھاکہ ”دھاندلی کامنصوبہ کس نے بنایا ،کہاںاور کیسے اِس پرعمل ہوااور اِس میںکون لوگ ملوث تھے”؟۔عبدالحفیظ پیرزادہ کاوہی گھڑاگھڑایا جواب تھاجو محترم عمران خاںنے حلقہ 122 کے الیکشن ٹربیونل کے سامنے دیاتھا ۔پیرزادہ صاحب نے کہاکہ الیکشن ریکارڈکے معائنے ،گواہوںکے بیانات اور عمومی عوامی تاثرہی وہ شہادتیںہیں جن کی بنیادپر کمیشن کوپیش رفت کرنی چاہیے سوال مگریہ ہے کہ محترم عمران خاںجو گزشتہ دوسالوںسے جلسے ،جلوسوں ،ریلیوں، پریس کانفرنس وںاور ٹاک شوز میں تواتر کے ساتھ یہ کہتے چلے آرہے ہیںکہ اُن کے پاس ڈھیروں ڈھیر نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں اور جونہی تحقیقاتی کمیشن بنامنظم دھاندلی ثابت ہو جائے گی۔

اب جبکہ تحقیقاتی کمیشن بن چکا، پھر ثبوتوں کا کنٹینر تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرنے میں کوتاہی کیوں؟۔ کیایہ ثبوتوںکی ویسی ہی پوٹلی تو نہیں جیسی معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو مرحوم کے پاس تھی، وہی پوٹلی جس کاراز کھولے بغیر بھٹو مرحوم اسے اپنے ساتھ ہی قبرمیں لے گئے ۔اگرکپتان صاحب کے پاس کوئی ثبوت ہے تواسے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کریں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کا پانی ہوسکے اوراگر نہیں تو پھر قوم یہ سوال کرنے میںحق بجانب ہے کہ 126 روزہ دھرے کی صورت میں قومی معیشت کابیڑا غرق کرنے کی سعی کرکے اُنہوںنے قوم سے کس جنم کابدلہ لیاہے؟۔ خاںصاحب نے اب نادراکے چیئرمین کوخط لکھ دیاہے کہ اُنہیں حلقہ 122 میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرنے والے نادرہ کے ڈی جی ڈیٹا پر اعتماد نہیں ۔سچ کہا تھا 2013ء کے الیکشن سے پہلے احسن اقبال صاحب نے ”خاںصاحب سارا الیکشن کمیشن خودتشکیل دے لیں اورساری نگران حکومتیںخود بنالیں لیکن یہ لکھ کردے دیںکہ انتخابی نتائج آنے کے بعدوہ یہ نہیںکہیں گے کہ دھاندلی ہوگئی۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر