تحریر۔۔۔شاہد شکیل ایک دوکاندار اپنے مال و اسباب میں یا کسٹمرز سے ہیرا پھیری کرے ،سرکاری یا غیر سرکاری ملازم فائلوں میں غلط اندراج کرے ،پولیس یا کسٹمزکے محکمے میں کرپشن ہو ، روزمرہ اشیاء میں ملاوٹ کی جائے ،ایجنسیز یا ڈسٹری بیوشن میں کروڑوں کا گھپلا، منسٹر، وزیرآعظم ،بادشاہ یا کسی بھی ریاست کا صدر عوام کا خون چوسے تو یقین کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کیسے یقین کیا جائے کہ جان بچانے والاڈاکٹر یا کسی سائنسی پروجیکٹ پر طویل تحقیق کرنے والا سائنسدان دھوکہ دہی یا جعل سازی جیسے گھناؤنے عمل کا مرتکب ہو ،لیکن یہ سچ ہے کہ دنیا بھر میں ماہر ڈاکٹرز، پروفیسرز اور سائنس دان کئی ایسے واقعات میں ملوث پائے گئے کہ انہیں شدید تنقید اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے آعلیٰ ٹائٹل سے دست بردار ہوئے، جرمنی کے ایک معروف میگزین نے تحقیق کے عنوان سے ناقابلِ یقین انکشافات کر کے عوام کو چونکا دیا۔
سائنسی تحقیق میں دھوکہ دہی ۔سائنسی تحقیق کرتے وقت تجربات کو پوشیدہ ، باریک بینی اور نہایت خوبصورتی سے جوڑ توڑ کرتے ہوئے عملی جامہ پہنانا ایک طویل عرصے سے روایت چلی آ رہی ہے، لیکن سائنسی تحقیق میں اس روایت کا آغاز کہاں سے ہوا ؟ دھوکہ دہی ا ور جعل سازی کا سائنس یا تحقیق سے کیا واسطہ؟ روزمرہ استعمال کی اشیاء اور ا ن کی کوالٹی پر تحقیق کرنے والوں کا جعل سازی میں ملوث ہونا ایک مسئلہ اور معمہ؟۔ بہت سے محقیقین کی تحقیقات کے اعداد وشمار کا وسیع پیمانے پر سائنسی سٹائل جو غلط بیانی پر قائم تھا کئی انٹرویوز میں انہوں نے غلطیوں اور غلط تحقیقات کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ جاپان کی ایک سائنس دان نے اپنے کیریئر کے آغاز میں ایک تجربہ کیا اور وثوق سے اسے کامیاب تجربہ قرار دیا کہ ان کی اس تحقیق جس میں نوزائیدہ چوہوں پر تحقیق کی گئی کہ انہیں سائٹرک ایسڈ کے استعمال سے جلدی جوان کیا جا سکتا ہے، اس تجربے کو پوشیدہ رکھا گیااور کچھ عرصہ بعد جینیاتی ہیرا پھیری قرار دے کر ہمیشہ کیلئے خارج کردیا گیا۔
انیس سو بیس میں آسٹریا کے ایک پروفیسر نے رنگوں کی خصوصیات پر کئی تجربات کئے اور ناکامی کی صورت میں اپنے آپ کو گولی مار کر ختم کر لیا۔برلِن یونیورسٹی میں سماجی علوم کے ایک پروفیسر نے انٹرویو میں بتایا کہ فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے والے ایک پروفیسر جو ممکنہ طور پر اگلے نوبل پرائس حاصل کرنے والوں میں نومینیٹ تھے نے بین الاقوامی سطح پر اپنی تحقیق کے دوران جعلسازی کی اور جرم ثابت ہونے پر اپنے ٹائٹل سے ہاتھ دھونا پڑا،امریکی جریدے سائنس نے تمام الزامات ثابت ہونے پر اس پروفیسر کے تمام آرٹیکلز واپس لے لئے اور تمام مواد مکمل طور پر ضائع کر دیا، پروفیسر نے جرمنی کی سپریم کورٹ میں ان پر عائد تمام الزامات کے خلاف احتجاج کیا لیکن چند ماہ بعد مقدمہ خارج کر دیا گیا
Fraud
پروفیسر نے بتایا کہ دنیا بھر کے محقیقین کی ان گنت جعلسازی اور دھوکہ دہی میں ملوث ان چند مثالوں کا تذکرہ دنیا بھر میں ہوا علاوہ ازیں کوئی نہیں جانتا اور کہنا مشکل ہے کہ سائنس یا تحقیق سے مواثلت رکھتی اور کہاں ،کتنی اور کن اقسام کی جعل سازی کی جاتی ہے کیونکہ موجودہ دور میں تحقیق کے نام پر جعل سازی ایک کلاسک کرائمز کا روپ دھار چکی ہے اور اس کا تعین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، بلکہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف ہے۔ جرمن ریسرچ فاؤنڈیشن برائے سائنسی امور ملک کی سب سے بڑی فنڈنگ تنظیم ہے،جس نے دوہزار تیرہ میں بتیس ہزار پروجیکٹ پر تحقیق کی اور تیس مختلف کیسسز میں سائنسی امور ،تحقیق ، کوالٹی کنٹرول میں ہیراپھیر ی ،جعل سازی ، ٹیکس چوری یا دھوکہ دہی میں ملوث پائے گئے
اداروں کا شک کی بنیاد پر جائزہ لیا،جن میں دو کی تصدیق ہوئی اور بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ، فاؤنڈیشن کی جنرل سیکریٹری نے کہا ہم بڑے پیمانے پر ہر چھوٹے بڑے معروف و غیر معروف انسٹی ٹیوٹ پر کڑی نظر رکھتے ہیں ہمارا مقصد اور مشن نہ صرف جعلسازی کا خاتمہ بلکہ عوام کو کوالٹی سے بھر پور اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، اگر سائنسدانوں یااداروں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہوں تو انہیں کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جاتا،ایک مثال بائیرن فٹ بال کلب کے صدر اولی ہونیس کی لی جاسکتی ہے جو آج ٹیکس چوری اور کلب میں دیگر جعل سازی کے الزامات ثابت ہونے پر جیل میں ہے، اداروں ،سائنسدانوں اور دیگر ہائی لیول کے افراد پر کڑی نظر رکھنا آسان نہیں اکثر غلط اعداد وشمار اور غلطیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور ایسے نازک اور حساس معاملات کو ہینڈل کرنے کیلئے بذریعہ خورد بین سے پرو سیسنگ کرنے کے بعد ہی ایکشن لیا جاتا ہے،سائنس دانوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنا جرم میں شمار ہوتا ہے
انکی غلطیوں ،تحقیق اور تجربات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ایک سروے کے مطابق ہر تیسرا سائنسدان معمولی غلطی سے بڑی غلطی میں ملوث پایا جاتا ہے، ہر سائنسدان اپنی تحقیق یا تجربے میں کامیاب نہیں ہوتا اور جعل سازی سے ڈیٹا میں دھوکہ کرتا ہے یا اسے توڑ جوڑ کر ساتھی سے منسلک کردیا جاتا ہے اور اکثر یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ دباؤ میں آکر یہ عمل کیا گیا، اس سال جولائی میں کولون کے ایک ڈاکٹر کو جعل سازی اور مریضوں کے ڈیٹا میں رد وبدل ،اپنے عملے کی تنخواہ ، ٹیکس میں خورد برد میں ملوث پائے جانے پر اس کی پریکٹس کو بند کر دیا اور لائیسینس ضبط کرلیا گیا
اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا،علاوہ ازیں ملک بھر میں دیگر کئی ایسے دھوکا دہی اور ڈیٹا کی ہیرا پھیری کے واقعات سامنے آئے جس میں کئی ڈاکٹر ز ، پروفیسرزاور سائنسدانوں کے علاوہ چھوٹے بڑے ادارے اور ان کے چیف ایگزیکٹو بھی خورد برد میں ملوث پائے گئے،مقدمات چلے ، جرمانے اور سزائیں ہوئیں۔ دنیا بھر میں کوئی نہ کوئی ادارہ ہوتا ہے جو دوسرے ادارے پر نظر رکھتا ہے نظر رکھنے کو ” واچ ” کہا جاتا ہے مثلاً فوڈ واچ ،ہیلتھ واچ ،ہیومن رائٹس واچ اور دیگر ادارے،سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسا واچ ہے جو دوسرے کو واچ کرے ؟