منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری

Tomatoes

Tomatoes

آج مہنگائی نے تو قوم کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا ہے، قوم اپنی زمین پر پیدا ہونے والی سبزیوں تک کو تو مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے اور مُلک کا ایک بڑا غریب طبقہ اِس مہنگائی کے ظالم دور میں اِن مہنگی ترین سبزیوں کو بھی خریدنے سے قاصر ہے، آج ٹماٹر کی قیمتوں کو تو جیسے پَر لگ گئے ہیں، یہ آسمانوں کی بلندیوں سے بھی اُونچا اُڑ رہا ہے اور آلو، پیاز جو زمین کے اندر پیدا ہوتے ہیں زائد قیمت کے بوجھ سے وہ زمین سے بھی باہر نہیں آرہے ہیں، اِن کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، تا کہ اِس حکومت کے چند مفاد پرست اِس کے اِس بحران سے فائدہ اُٹھاسکیں، اور آلو پیاز کی ذخیرہ اندوزی کرکے مارکیٹ سے زائد منافع کما سکیں، بہرحال..!کسی وجہ سے مُلک میں آلو اور پیاز کا بحران پیدا ہونے سے رہ گیا اور اگر ایسا ہو جاتا تو یقینا اُن لوگوں کو ہی فائدہ پہنچتا جو اِس کا مُلک میں مصنوعی بحران پیدا کرنا چاہ رہے تھے۔

اِن حالات میں اَب حکمرانوں کو کون یہ بتلائے کہ قوم تو بیچاری بھوکی پیاسی ہے اوریہ رُوکھی سُوکھی روٹی کو بھی ترس رہی ہے، آج اِس عالم میں اِس کا کوئی پرسانِ حال بھی نہیں ہے، یہ بیچاری توبس جیسے تیسے ایڑیاں رگڑرگڑاور اپنے منہ سے مکھیاں ہکاں ہکاں کر اپنے دن پورے کر رہی ہے مگر اُدھر ہمارے حکمران ہیں کہ یہ اپنی مفلوک الحال قوم کی فکر کرنے اور اِس کی حالتِ زندگی سنوارنے کے بجائے اپنے لبوں پہ دنیا دِکھاوے کے لئے مُلکی ترقی اور عوامی خوشحالی کا ہی نغمہ سجائے قومی خزانے سے سرکاری خرچے پر کبھی اپنے وزراء تو اکثر اپنی فیملی ممبران کے ساتھ دیس دیس کے سیر سپاٹے کرتے ہی نہیں تھک رہے ہیں۔

حالانکہ گیارہ مئی کے عام انتخابات سے پہلے اپنی معرکہ آرا (معرکتہ الآرا یہ امِلا غلط العام ہے ) انتخابی مہم جوئی کے دوران اور پھر اِس کے بعد برسرِ اقتدار آنے والی جماعت پاکستان مُسلم لیگ(ن) اور اِس کے سربراہ اور ہمارے موجودہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت ن لیگ کے ہر رُکن نے قوم کو خوشحالی اور ترقی کے جیسے خواب دِکھلائے، آج اگر وہ سب کے سب پہلے ہی روز سے حقیقت میں سچ ثابت ہونا شروع ہو جاتے تو یقینا اِن پانچ سات مہینوں میں مُلک میں کچھ نہیں توتھوڑی بہت ہی سہی ترقی ضرور نظر آتی اور عوام کے چہروں پر برسوں سے اٹّی مایوسی اور نااُمیدی کی گرد بھی ضرور صاف ہوتی جاتی اور عوام کے چہرے خوشیوں سے ٹمٹما اُٹھتے۔

آج مگر افسوس ہے کہ اَب تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے جس کا ہماری موجودہ حکمران جماعت پی ایم ایل (ن) کے سربراہ اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنی معرکہ آرا انتخابی مہم جوئی کے دوران عوام سے کرنے کے وعدے اور دعوے کئے تھے، آج ن لیگ کو اقتدار سنبھالے اتناعرصہ گزرجانے کے باوجود بھی عوام کے حصے میں پہلے سے کہیں زیادہ نامرادی اورمایوسی ہی آئی ہے، اِس کی کیا کیا وجوہات ہیں..؟، مجھے اِن کی تفصیلات میں اپنے اِس محدود سے کالم میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج جو میرے قارئین میرایہ کالم پڑھ رہے یا پڑھیں گے وہ اُن تمام وجوہات کو خُوب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران ایساکچھ کیوں نہیں کر رہے ہیں کہ جس کے کرنے سے عوا م کو مہنگائی سے نجات ملے اور عوام کو اِس بات کا احساس ہو چلے کہ چلو کوئی تو ایسا حکمران پیدا ہوا ہے جِسے عوامی مسائل اور پریشانیوں کا درد ہے اور وہ عوام کو اِن کے مسائل اور پریشانیوں سے نجات دلانے کے لئے کمر بستہ ہے۔

جبکہ دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ مایوسی اور نااُمیدی کے گہرے سمندر کی تہہ سے جالگنے والے اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی کے ترانے تو سُناتے نہیں تھک رہے ہیں، مگر یہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور کسی بھی معاملے میں ریلیف دینے یا دلانے والے اقدامات و احکامات بھی تو جاری نہیں کر رہے ہیں آج اگر اِس صُورت حال میں بالفرض عوام یہ مان بھی جائیں کے مُلک میں مہنگائی اِس لئے بے لگام ہوچکی ہے کہ عالمی سطح پر ڈالرز کی قیمت بڑھ گئی ہے اِس وجہ سے بیرونِ ممالک سے جو روز مرہ استعمال کی اشیائے خوددونوش مُلک میں آتی ہیں حکومت کو وہ بین الاقوامی منڈی سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں اِس لئے اشیائے خودونوش مہنگی ہو جاتی ہیں۔

Inflation

Inflation

مگر آج تو اِس عوام دوست ن لیگ حکومت کے دعویداروں نے تو اپنی ہٹ دھرمی اور بے حسی کی حد ہی کر دی ہے، اِنہوں نے تو اپنے یہاں پیداہونے والی ہر غریب و امیر کی روزمرہ کھانے پینے والی استعمال کی اشیاجن میں ٹماٹر، آلو، پیاز اور چینی جیسی دیگر روز مرہ استعمال کی اشیا بھی شامل ہیں اِن کی بھی جو قیمتیں آسمانوں سے بھی زیادہ بلندترین سطح تک بڑھا دی ہیں اور آئندہ بھی اِن کی قیمتیں بڑھنے کے خدشات ہیں یہ سب کس کے لئے اور کس کے کہنے پر کی گئی ہیں اور یہ کونسی ایسی اشیا ہیں کہ اِن پر براہ راست ڈالرز کے بڑھنے یا گھٹنے کا اثر ہوتا ہے یا یہ اشیا باہر سے منگوانی پڑتی ہیں.. ؟ہاں اِس حکومت میں واہگہ بارڈر کے راستے ہندوستان سے ٹماٹر، پیاز اور آلو اِس لئے منگوانے پڑتے ہیں کہ ہندوستان سے ٹریڈاور تعلقات استوار ہو جائیں، موجودہ حکومت ہندوستان سے سیاسی تعلقات بہتر کرنے کے لئے ٹماٹر، پیاز اور آلو وہاں سے منگوا رہی ہے، ورنہ تو اِس کی بھی کوئی خاص ایسی ضرورت تو نہیں تھی کہ ہندوستان سے یہ اشیا فضول میں منگوائی جائیں اور ہم ہندوستان اور ہندوستانی بیوپاریوں کے نخرے برداشت کریں اور جب ہندوستانی ہم سے ناراض ہو جائیں تو وہ تُرنت ہمیں ٹماٹر، آلو اور پیاز دینا بند کر دیں تو ہمارے حکمران اِسے بہانہ بنا کر اپنے یہاں ٹماٹر، آلو اور پیاز کی قیمتیں بڑھا کر اِسے آسمانوں کی بلندیوں سے بھی اُونچی کر دیں اور یوں عوام کو مہنگائی کے عذاب میں دھکیل دیں، کہ عوام مہنگائی کے جہنم میں ہی بھسم ہوتے رہیں اور وہ مزے سے مُلک میں ترقی و خوشحالی کے نغمے ہی گاتے ہیں، جبکہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر رُوکھی سُوکھی دو وقت کی روٹی سے بھی محروم رہیں۔

آج اِس سے بھی کوئی ذی شعور تو کیا کوئی عام ساذہن رکھنے والا پاکستانی بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نہ سوچتا اور سمجھتا ہو کہ جب سے ن لیگ کے سربراہ اور بزنس مائنڈ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت آئی ہے تب ہی سے مُلک میں مہنگائی، بھوک و افلاس، تنگدستی، اقرباء پروری، لوٹ مار، قتل وغارت گری، کرپشن، خودکشی کے رجحانات اور میرٹ کا قتل ہونا ایک عام سی بات ہوگئی ہے اور آج نواز حکومت کا ایک یہ بھی کارنامہ ہے کہ تب سے نواز لیگ نے اقتدار سنبھالا ہے جب سے ہی مُلک میں توانائی کی شکل میں آئے بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر بحرانوں میں کمی آنے کے بجائے اِن بحران اور اِن بحران زدہ اشیا کی قیمتوں میں روز افزوں اضافہ ہونا بھی کوئی اچنبے/اچنبھے کی بات نہیں رہی ہے۔ آج حکمران جماعت ن لیگ کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت سب حکومتی کارندوں کو یہ پڑی ہے کہ مُلک میں آئی ایم ایف کے گڑے پنچے کوئی نہ اُکھاڑے اور اِس کے یہ پنچے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزیدگڑتے اور پھیلتے جائیں، چاہئے عوا م کو جتنی تکالیف اُٹھانی پڑیں تو وہ اُٹھائے، مگر مُلکی معیشت کے استحکام اور اقتصادی ڈھانچے کی مضبوطی کے لئے عوام کو گڑوی گولیاں مہنگائی کے زہرکے ساتھ ہر حال میں نگلنی ہوں گی، اَب اِسے عوام اپنے حکمرانوں کا حکم سمجھے، التجایا مشورہ سمجھ کر ایساکرے جیسا اِنہیں عوام سے کرانے کے لئے آئی ایم ایف، ورلڈبینک یا امریکا حکم دیتاہے اور یہ اِن سے حکم ملتے ہی فوراََ اپنے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔

یہاں یہ امرباعث تشویش ضرور ہے کہ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مُلک کے غریب طبقے کا یہ حال ہے کہ وہ سبزی خریدکر کھانے کے بھی قابل نہیں رہا ہے، آج مُلک کے غریب طبقے کا اتنا حال بُرا ہو گیا ہے تو اِس سے زیادہ حکمران اِس سے اور کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں، کیا حکمران یہ چاہتے ہیں کہ دووقت کی رُوکھی سُوکھی روٹی سے بھی محروم مُلک کا غریب طبقہ اِن کی حکومت چلانے کے لئے اپنے جسم میں موجود خون اور روح کا بھی ٹیکس اِنہیں اداکرے تو اِس سے حکمرانوں کی سیر سپاٹے کی گاڑی اور مُلک کی معیشت کا پہیہ چلے …؟اور ہمارے بے حس حکمران اور اِن کے خاندان کا ہر فرد مزے کرے اگرحکمران قوم کے غریبوں سے یہ قربانی چاہتے ہیں تو پہلے یہ بھی ایسا کر کے دِکھائیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو پاکستان سمیت ساری دنیامیں اپنا کاروبار جمائے ہوئے ہیں اور اپنی آدھے پاکستان جتنی زمینیں اور جائیداد رکھتے ہیں وہ قومی خزانے کوٹیکس کی مد میں 5000 ہزار کیوں دیتے ہیں وہ اور اِن کی جماعت کے تمام کرتا دھرتا اور حکومتی اراکین سب کے سب اپنی پوری ایمانداری اور نیک نیتی سے پہلے صحیح ٹیکس اداکریں اور اپنی خرچیاں کم کریںتو پھر اپنی غریب قوم سے بھی گڑوی گولیاں نگلنے کو کہیں، اِن لوگوں نے تو مُلک کو سُونے کی مرغی سمجھ لیا ہے، آج اِن لوگوں مُلک اور قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے بھی قومی خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا ہے آج یہ قومی اداروں میں اپنی پسند کی شخصیات کو تعینات کر کے مُلک میں اپنی من مانی چلانا چاہتے ہیں اور مُلک میں نج کاری کے عمل کی آڑ میں قومی منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرنا چاہتے ہیں جو قومی غداری کے مترادف ہو گا اِس طرح ر ہمارے موجودہ بزنس مائنڈڈ حکمران ایسا کر کے مُلک سے سب ہی کچھ لوٹنا چاہتے ہیں اور یہ اِس بنا پر سب ہی کچھ اپنے سیر سپاٹے کے لئے لوٹ کرلے اُڑنے کے چکر میں پڑیں ہیں، اَب قوم کب جاگے گی، اَب اِس کا فیصلہ اِسے خود کرنا ہو گا، کہ وہ یہ تو اپنے حکمرانوں سے پوچھے کہ وہ منافع بخش قومی اداروں کو کیوں فروخت کر رہی ہے..؟اور اِسے ایساکرنے کو کون کس لئے اور اپنے کِن مقاصد کے حصول کے لئے کہہ رہاہے۔؟ آج اتنا تو قوم اپنے اِن بزنس مائنڈڈ حکمرانوں سے پوچھ سکتی ہے یا اِس کے لئے بھی کسی کے آنے کا انتظار کر رہی ہے کہ کوئی آئے گا تو وہ پوچھے گا…؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com