حافظ محمد سعید آزاد کشمیر میں

Kashmir

Kashmir

آزاد کشمیر، 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت انگریز کی سازش کے بعد بھارتی پنجے سے چھڑایا جانے والا خطے کا وہ حصہ ہے کہ جس کا انتظام و انصرام پاکستان کے پاس ہے۔ 13 ہزار 297 مربع کلومیٹر پر پھیلے 10اضلاع بھمبر، کوٹلی، میر پور، مظفر آباد، ہٹیاں، نیلم، پونچھ، حویلی، باغ اور سندھنوتی پر مشتمل اس خطے کی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے۔

یہاں کی آبادی 100فیصد مسلمان ہے تو سبھی اسلام اور پاکستان کے وفادار سپاہی ہیں۔ یہی تو وجہ ہے کہ بھارت لاکھ کوششوں کے باوجود یہاں کے لوگوں کو اپنے کسی مذموم مقصد کیلئے کبھی خریدنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ مقبوضہ کشمیر کے سبھی لوگ اگر بھارت سے زبردست نفرت اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں تو یہی کیفیت آزاد کشمیر میں ہے۔ یہی خطہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کا بیس کیمپ بھی ہے، جہاں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے 30 ہزار سے زائد مہاجرین بھی بسیرا کئے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے بدترین اور ازلی دشمن بھارت سے دن رات آنے والی گولیوں اور بارود کو اپنے سینے پر سہہ کر پاکستان کو محفوظ رکھنے والے اس خطہ سے والہانہ محبت رکھنے والے حافظ محمد سعیدنے گزشتہ دنوں یہاں قدم رنجہ فرمایا تو اہل کشمیر نے ان کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کر دیئے۔

حافظ محمد سعید اپنے دو روزہ دورے کے آغاز پر سب سے پہلے میرپور پہنچے۔ میر پور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے اپنے دورئہ کشمیر کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کو اس کی آزادی کی منزل تک پہنچانا اور آزاد و مقبوضہ علاقے کو یکجان کرنا ان کا مقصود ہے۔

دورئہ کشمیر میں امیر جماعة الدعوة کا سب سے پہلا عوامی پروگرام میرپور کے معروف مقام چکسواری میں تھا جسے غزوہ ہند کانفرنس” کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ چکسواری کے اس مقامی شادی ہال میں پہنچے تو سامنے لکھا پایا کہ ”آزاد کشمیر کا سب سے بڑا شادی ہال” ۔ وسیع و عریض ہال میں ہزاروں کرسیاں سجا دی گئی تھیں جبکہ ہر طرف سے لوگ اس مقام کی جانب امنڈے چلے آ رہے تھے۔

پروگرام کا افتتاحی خطاب حافظ عبدالغفار منصور کا تھا۔ اس کے بعد راقم کو گفتگو کا موقع دیا گیا جسکے بعد مولانا سیف اللہ خالد نے پرجوش انداز میں غزوہ ہند و جہاد کے حوالے سے گفتگو کی۔ اسی دوران جماعت کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمن مکی بھی آن پہنچے، جنہوں نے اپنے پرجوش اور مخصوص طرز خطابت سے مجمع کو گرما دیا۔

Hafiz Mohammad Saeed

Hafiz Mohammad Saeed

اس کے بعد یہاں اذان مغرب اور پھر نماز مغرب ہوئی جس کے بعد امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید کا خطاب شروع ہوا توکانفرنس میں شریک ہونے والوں کی بڑی تعداد ہال میں بیٹھنے کی جگہ نہ پا کر کھڑی تھی تو بہت سے لوگ ہال سے باہر بھی موجود تھے۔ حافظ محمد سعید نے خطاب کا آغاز کیا تو یوں لگا جیسے ہر نگاہ، ایک ہی جانب اور ہر کان اسی آواز کو دماغ میں سمونے کیلئے ہمہ تن منہمک ہے۔

حافظ محمد سعید حفظہ اللہ نے پاکستان کے مستقبل کے نقشے، بھارت کی سازشوں، مودی کی پالیسیوں اور جہاد کی کامیابیوں کا دل آویز انداز میں ایسا تذکرہ کیا کہ ہر دل کو چھو سا گیا… یہاں آنے والے بیشتر لوگ وہی تھے جنہوں نے حافظ محمد سعید کو کبھی آمنے سامنے دیکھا اور براہ راست نہیں سنا تھا۔ اسی لئے تو یہاں آنے والے سبھی لوگ ایک نئی امنگ اور ترنگ لئے واپس لوٹ رہے تھے۔

اس شادی ہال نے یقینا ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا نہ اتنے مہمانوں کو اپنے دامن میں کبھی پایا تھا۔ حافظ محمد سعید کے اس قافلے کی اگلی منزل کوٹلی شہر تھا، جہاں آبشار چوک میں سٹیج سجایا گیا تھا۔ یہاں ”کشمیر کانفرنس” کے نام سے منعقدہ پروگرام کی تیاری کئی روز تک شد و مد سے کی گئی تھی۔یہاں ٹھنڈی ہوائوں نے موسم خوشگوار بنایا تو اہل علاقہ جوق در جوق آبشار چوک کی جانب بڑھتے ہی چلے آ رہے تھے۔

تاحد نگاہ کرسیاں اور پھر ان پر بیٹھا پرجوش ہجوم… یہاں حزب اسلامی اور مسلم کانفرنس سمیت کئی تنظیمیں اپنے اپنے جلوس لے کر شریک ہوئیں تو معززین شہر، مقامی سیاسی و مذہبی رہنمائوں کی کثیر تعداد میں آمد سے سٹیج تنگی داماں کی شکایت کرنے لگا۔جماعة الدعوة کے کئی مقامی اور مرکزی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کے قائدین نے بھی خطاب کیا تو کتنے ہی ایسے تھے کہ ان سے وقت کی کمی کے باعث معذرت کرنا پڑی۔

اسی دوران حافظ محمد سعید سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے تو سارا مجمع اور سارے مہمانان گرامی بغیر کسی اعلان یا آواز کے ان کے استقبال کیلئے اٹھ کر کھڑے ہوئے اور نعروں سے استقبال کرتے نظر آئے۔ دیر تک پرجوش خیرمقدم کے بعد حافظ عبدالرحمن مکی اور پھر آخر میں حافظ محمد سعید کا خطاب ہوا تو یہاں آنے والے موجودہ ریاستی اسمبلی کے ممبران اور سابق وزراء سمیت سبھی محبت و عقیدت کے ساتھ خطاب سننے کو بیٹھ گئے اور کسی نے جانے کی کوشش نہ کی۔ حافظ محمد سعید نے جب اپنے خطاب کا اختتام اس جملے پر کیا کہ ”بھارت اگر کسی طرح کشمیر چھوڑنے پر تیار نہیں ہے تو پھر ہم بھی کشمیر لینے کیلئے ہر حد پار کر سکتے ہیں۔” تو ہر چہرے پر شادابی اور نئے جذبوں کی بے تابی تھی۔

یہاں رات کے قیام کے بعد اگلی صبح راولا کوٹ کی جانب روانگی تھی جہاں کے مرکزی مقام صابر شہید سٹیڈیم میں وسیع پنڈال سج چکا تھا۔ زیر تعمیر اور ٹوٹی سڑکوں، اونچے نیچے اور بل کھاتے راستوں سے ہوتے ہوئے جب ہم تراڑ کھل پہنچے تو راولا کوٹ کی جانب کانفرنس میں شرکت کیلئے جانے والا ایک بڑا قافلہ دور تک پھیلا نظر آیا۔

راولا کوٹ سے چند کلومیٹر پہلے استقبالیہ کیمپ قائم تھا جہاں شہر بھر سے گاڑیاں اور قافلے حافظ محمد سعید کے استقبال کیلئے جمع ہو رہے تھے۔ میر پور سے یہاں تک ہر جگہ لوگوں کے مسکراتے اور دمکتے چہرے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ حافظ محمد سعید کی آمد ان کے لئے زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ دوسری طرف سٹیڈیم میں ”غزوہ ہند کانفرنس” شروع ہو چکی تھی جس کا پنڈال تیزی سے بھر رہا تھا۔ یہاں پہلے راقم، پھر مولانا عبدالعزیز علوی اور پھر سیف اللہ خالد نے تفصیلی گفتگو کی۔ اسی دوان حافظ محمد سعید، حافظ عبدالرحمن مکی کے ساتھ سٹیج پر پہنچے تو پنڈال تنگیء داماں کی شکایت کرتا نظر آیا۔

حافظ عبدالرحمن مکی نے نہایت مختصر طور پر غزوہ ہند کی فضیلت اور اہمیت بیان کی تو حافظ محمد سعید نے کشمیر، عالم اسلام اور پاکستان کے حوالے سے اپنے دل کا درد بیان کیا جسے سننے یہاں ہزاروں لوگ پہنچے تھے۔ سخت گرمی اور پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود کوئی پنڈال سے باہر جانے والا نظر نہ آتا تھا بلکہ سبھی اپنے آس پاس سے بیگانہ سے ہو کر حافظ محمد سعید کا دل آویز خطاب سن رہے تھے۔

یہاں کا یادگار و منفرد پروگرام مکمل ہوا تو قافلے کی اگلی منزل ”باغ” شہر تھا جہاں اہل علاقہ کی بڑی تعداد جمع تھی تو بہت سے لوگ پنڈال سے باہر اور آس پاس کھڑے ہو کر پروگرام سننے میں مصروف تھے ۔یہاں جماعة الدعوة کے علماء و معززین کے ساتھ مسلم کانفرنس کے رہنمائوں، مقامی بار، تاجران، مذہبی نمائندوں اور معززین نے بھی خطاب کیا اور جماعة الدعوة کے ساتھ ہی جینے مرنے کے عہدوپیمان باندھے۔

یہاں مسلم کانفرنس کے صدر اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کا بھیجا گیا تفصیلی بیان بھی ان کے نمائندے نے پڑھ کر سنایا جس میں ان کی اسلام، پاکستان اور جماعة الدعوة کے ساتھ محبت جھلک رہی تھی۔ حافظ عبدالرحمن مکی اور حافظ محمد سعید نے خطاب کے بعد یہاں سے رخصت چاہی۔ اہل کشمیر کی حافظ محمد سعید کے لئے ایسی محبت پوری آزاد ریاست میںہر جگہ دیکھی، جہاں ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ حافظ محمد سعید ان کے چند لمحوں کا قیام کریں اور انہیں ضیافت کا ضرور موقع دیں۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین