دِیا جلائے رکھنا ہے

Independence Day of Pakistan

Independence Day of Pakistan

تحریر : شاہ بانو میر

یہ 2002 کی بات ہے جب نائن الیون کی چنگاریاں ابھی سلگ رہی تھیں
پیرس میں فیڈریشن کے تحت 14 اگست کا شاندار پروگرام منعقد کروایا گیا جو تقریبا 3 سال تک ہر اگست میں منعقد ہوتا رہا
گمان ہے کہ ہر پروگرام میں 500 سے زائد خواتین و بچے موجود ہوتے تھے
اور
لگ بھگ 300 کے قریب مرد حضرات ہوتے تھے جن کیلئے دوسرا ہال لیا جاتا تھا
شاندار فیملی پروگرام بھرپور جزبوں کے ساتھ پاکستانی قوم کی شمولیت “”زندہ قوم کا تاثر اجاگر کرتی تھی
مجھے انتظامیہ کی طرف سے بتایا جاتا تھا کہ
ہال میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہے اور سڑک پر تاحد نگاہ پاکستانی فیملیز کی کاریں کھڑی ہیں
یہ جذبے بناوٹی نہیں تھے بکاؤ نہیں تھے
بے مول انمول تھے
یہ محبت تھی وطن سے
جب وطن کی پکار 14 اگست کی صورت سنائی دی تو دور دراز سے لوگ کھچے چلے آتے تھے
الحمد للہ
اللہ کا احسان تھا کہ وہ تینوں بڑے پروگرامز کرنے کا اعزاز مجھے ملا
جن میں پی ایچ ڈی کرنے والی طالبہ سے لے کر عام پاکستانی سادہ لوح خواتین بھی حصہ لیتی تھیں
بچوں اور خواتین کے ساتھ نت نئے ٹیبلوز ملی نغمے ملکہ ترنم کی پیروڈی آج تک سب یاد کرتے ہیں
ادارہ منہاج القرآن کے ذہین بچے تربیت یافتہ منظم انداز میں ہمارے ساتھ رہے
ان کا تجربہ کار قوالی گروپ سب کے سب یاد ہے
بچوں کے خوبصورت انداز اور علامہ اقبال کے کلام پر مبنی با مقصد ٹیبلو آج بھی ذہن میں چلتے ہیں
خواتین و حضرات کا اس میں حصہ انمٹ یادیں ہیں
دیدہ زیب کپڑوں کی نمائش اسٹالز
“”تیرے رنگ رنگ”” کا منفرد انداز اتنا پسند آیا کہ بچوں کو دو بار کرنا پڑا
مسعود انور کا شہرہ آفاق کلام “” چوہدری اور رحما”” ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ کر دیتا تھا
مختلف گیمز میں انعامات ہی انعامات
کل 2002 2003 اور 2004 میں
میرے ساتھ کام کرنے والی بچیاں آج ماشاءاللہ مائیں بن چکی ہیں
جب کمیونٹی پروگرامز بند ہوئے تو بچے 14 اگست کے اتنے عادی ہو گئے تھے
کہ
اصرار کر کے 2005 میں کسی کے گیراج کو خالی کر کے ہم نے 14 اگست منایا
ان شوز میں میجک شو لاٹری عمرہ ٹکٹ وغیرہ بھی تھے
ڈاکٹرشاہد مسعود نائن الیون کے بعد اپنے تبصروں کے باعث خاص مقام حاصل کر چکے تھے
وہ بھی پروگرام میں تشریف لائے
پہلی بار ماؤں بہنوں بیٹیوں کو ڈاکٹر شاہد کے بیان پر روتے دیکھا
پہلا پروگرام جو 2002 کا تھا اس پروگرام میں ایک خاتون میرے پاس آئیں
اور
پروگرام کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا
یہ شازیہ چوہدری تھیں
جو اس پروگرام میں بچوں کے کامیاب انداز کو تعریفی کلمات سے سراہ رہی تھیں
“”دیے سے دیا کیسے جلتا ہے””
کہ
کل 2002 میں ان ثقافتی رنگوں کو پسند کرنے والی”” شازیہ چوہدری””
آج باوجود مصروفیت کے بھرے پُرے خاندان کے اپنے بچوں کو یکجا کرتی ہیں
اور
2017 اور اب 2018 میں بالکل انداز طرز پر گھریلو انداز میں بچوں کو پاکستان سے روشناس کرواتی ہیں
کام گھر کے ساتھ ساتھ وطن کیلیۓ ہمہ وقت حاضر
گزشتہ سال جب پہلا میلہ فرانس میں منعقد ہوا تھا
تو انکی محنت سے تیار کئے گئت بچوں کے ٹیبلو نے عام ڈگر سے ہٹ کر الگ انداز میں عوام کی پزیرای حاصل کی
انہوں نے پروگرام میں چار چاند لگا دیے تھے
میں نے جب شازیہ چوہدری کو بچوں کے ساتھ ٹیبلو تیار کرتے دیکھا تو لگا
کہ زمانہ پیچھے چلا گیا ہے
اور
بچوں کے درمیان 2002 میں میں اپنے ساتھی بچوں کے ساتھ خود کھڑی انہیں سمجھا رہی ہوں
تلفظ درست کروا رہی ہوں
شائد اسی کو”” دیے سے دیا جلنا”” کہتے ہیں
وہ سوچ وہ پاکستان سے محبت وہ خلوص وہ وفا ابھی ختم نہیں ہوئی
سفر جاری و ساری ہے
سفارتخانہ پاکستان نے 14 اگست 2018 کے پروگرام کی تیاری کیلئے مشورہ کیا
تو اپنے استاذہ کرام سے مشورہ کیا
قرآن کی تعلیم کے بعد ان سے مشورہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے
ان کی جانب سے اجازت ملنے پر اللہ پاک سے مدد مانگتے ہوئے جب پروگرام کیلیۓ نظر کو دوڑایا
تو شازیہ چوہدری کا چہرہ دکھائی دیا
ان سے بات کی تو وہ آمادہ تھیں
باوجود کام کی مصروفیت کے کہنے لگیں
“”پاکستان کیلیۓ تو جان بھی حاضر ہے””
جب جذبے ایسے جاندار ہوں تو بچے کیسے اثر قبول نہیں کریں گے
بہت کم وقت میں انہوں نے ملی نغمے چنے اور بچوں کو اکٹھا کر کے تیاری کروائی
پیارے پیارے بچے فرشتوں جیسی سادگی معصومیت کے ساتھ جب ملی نغمے پیش کرتے ہیں
تو
کوئی ہاتھ ایسا نہیں ہوگا جو تالی نہ بجائے
ان بچوں کی ننھی سی خوشی ان کے چہروں پر امڈتی دیکھی
نئی نسل نیا انداز نیا سال تبدیلی یہی ہے
میری سوچ ہمیشہ سے یہی رہی کہ
عمر کا کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے جب آپ کو ملک کیلیۓ بھرپور کام کرنا سامنے آکر کرنا چاہیے
لیکن
جم کر نہیں بیٹھنا چاہیے کام کریں اور جگہ دوسروں کیلئے خالی کریں
تا کہ تازہ مفرح سوچ کا گزر ہو
اب ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ طویل عرصہ کے بعد
پھر سے فیملیز کے پروگرامز کا راستہ کھلا ہے
ورنہ عرصہ دراز سے تو پیرس کا مزاج “”بیچلرز “” والا ہوگیا تھا
جس میں فیملیز کا آنا ناممکن تھا
کسی ایسی ہستی کی ضرورت تھی
جو سنجیدہ ہو باشعور اور محنتی بھی
الحمد للہ
شازیہ چوہدری اللہ کی ان نعمتوں سے مالا مال ہیں
پرسکون پابند ٹھوس سوچ کی مالکہ
شازیہ کا کمیونٹی پروگرامز میں شامل ہونا
بچوں کو ایک ٹیم کی صورت متحد کر کے پاکستان مقصد بنانا
مجھ سمیت ہر اُس پاکستانی کے تشنہ جذبوں کی جیت ہے
جو آج بھی اتنے ہی طاقتور ہیں جتنے 2002 میں تھے
آج کمیونٹی پروگرامز فیملیز کیلئے کشش کھو چکے ہیں
پروگرامز کی آڑ میں بزنس کی شکایات مسلسل ملتی ہیں
بے ضرر فیملی پروگرامز کا اجراء اداس ماحول میں تراوٹ کیلئے ازحد ضروری ہے
آج پروگرامز میں میزبانوں سے ٹیبل بھرا ہوتا ہے اور سامعین غیر حاضر
اللہ کرے پھر سے وہ پرانا با رونق وقت واپس آئے
سیاست ختم ہو اور سب کا پاکستان سب کیلئے ہو
یہ بیڑہ صرف وہ ہستی اٹھا سکتی ہے
جس میں اپنی ذات کی بڑائی شہرت اور نفع کی سوچ نہ ہو بلکہ وسیع تر قومی مفاد پیش نظر ہو
اللہ کرے کہ
شازیہ چوہدری فرانس میں پاکستان کیلیۓ نئی داغ بیل ڈال سکیں
بہت عرصے بعد ایسا گھریلو ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے جس میں کوئی کھینچا تانی نہی
کوئی جھگڑا نہیں
بد لحاظی بد تمیزی حسد نہیں
چھینا جھپٹی نہیں
پرسکون انداز میں کام شروع ہوا
اور
مکمل ہو گیا
پاکستانیوں کے تالی بجاتے ھاتھ ہماری محنت کی وصولی تھی
جو ہو گئی
شکر گزار ہیں سفارت خانہ پاکستان کے جنہوں نے ہم پر یہ اعتماد کیا
اور
عام پاکستانی بچوں کو موقعہ دیا کہ وہ بھی پاکستان کو محسوس کر سکیں
بچوں کی مائیں اس طرح جب سفارت خانہ آئیں تو انکی خوشی کی انتہاء نہیں تھی
پاکستانی خواتین و حضرات کو ایسے پروگرامز میں شمولیت کی عام دعوت دینی چاہیے
تاکہ پاکستان کا ہر رنگ نمایاں ہو
یکسانیت اور کچھ چہروں سے ہٹ کر تبدیلی کا اندازہ ہو
پاکستانیوں کی عام شرکت شازیہ جیسی خاتون کے توسط سے ممکن ہے
شاہ بانو سے شازیہ تک کا سفر
یعنی 2002 سے 2018
اس وقت میں پاکستان کی آنچ کو دل میں مدہم نہیں ہونے دیا
اس کی محبت الاؤ بن کر رگ و پے میں بھڑکتا رہا اور مرتے دم تک ایسے ہی رہے گا انشاءاللہ
یہ دِیا آج مزید روشن ہوگیا جب شازیہ نے ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ مخلص ساتھ دیا
نئے دور کا کامیاب آغاز خاموش تبدیلی سے
کوئی فوٹو سیشن نہیں ٌ
روز روز کی میٹنگز نہیں شور شرابہ غُل غپاڑہ نہیں ہے
ڈنر نہیں لنچ نہیں
گہرا خاموش انداز کامیابی کی کنجی
ان بچوں کی والہانہ محبت دیکھ کر پاکستان بھی خوشی سے جھوم اٹھا ہے
بچے
مُسکرا پاکستان
مُسکرا مُسکرا کر سناتے ہیں
اور
کہتے ہیں
آئی لو مائے پاکستان
کل بچوں کے ساتھ ہم تھے
آج نئے بچوں کے ساتھ شازیہ ہے
انشاءاللہ یہ آزادی کا دِیا جلتا رہے گا
اور
کل نئی نسل کے بچوں کے ساتھ کوئی اور ہوگا
یونہی سلسلہ چلتا رہے گا
اسی لئے تو
دِیا جلائے رکھنا ہے
شکریہ سفارتخانہ پاکستان آپ کے اعتماد کا
اور
شکریہ شازیہ چوہدری اور پیارے بچو
آپ کے جذبوں کا عمل کا
پاکستان زندہ باد

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر