وزیر اعظم پاکستان نے سعودیہ عرب میں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان واضح فرق بدعنوانی کو قرار دیا جوکہ پاکستانیوں کو تو سمجھ آجانے والی بات ہے۔ بدعنوانی وہ دیمک ہے جس کی وجہ سے قومیں آگے کی طرف بڑھنے کی بجائے الٹاپیچھے کی جانب چلنا شروع کردیتی ہیں ،ان بدعنوانوں کی مثال ایسی ہے کہ جیسے جس شاخ پر آشیانہ ہو اسی کو کاٹنا شروع کردیتے ہیں پھر ایک دن آشیانے کو تو نقصان پہنچادیتے ہیں مگر خود اڑ کر کسی اور شاخ پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ لیکن عزت ماب وزیر اعظم صاحب وہ ملک بھی ترقی کے سفر میں کہیں گم ہوجاتے ہیں یا پھر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ،جن کے حکمران بار بار ایک ہی غلطی دہراتے رہتے ہیں۔
یہاں خصوصی طور پراس غلطی کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جن منصوبوں پر جو ملک کے مختلف شہروں خصوصی طور پر کراچی ، لاہور ، پشاور وغیرہ میں کسی بھی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں ملک میں جاری منصوبوں کی تکمیل کیلئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔کیا پاکستان اپنے آپ کو اب بھی خوش قسمت سمجھنے کا اہل نہیں کہ عمران خان جیسا صاحب بصیرت وزیر اعظم برسر اقتدار ہے ۔ خان صاحب پاکستان سے جتنے مخلص ہیں شائد ہی کوئی اور سیاست دان ہوگااگر ہوتا تو آج جو پاکستا ن کا حال ہو چکا ہے ،قطعی نہیں ہوتا۔ یقیناًکہنے والے یہ ضرور کہنا چاہئنگے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت کس نے بنایا؟ تو بہت آسان اور سیدھا سا جواب ہے کہ اسکا حتمی سہرا ہماری فوج کے سر سجتا ہے۔
دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے سب سے پہلے سیاسی و ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا اور ملک کے مفادات کو سب سے اہم قراد دیا جس کا منہ بولتا ثبوت انکی حکمت عملیوں کا تسلسل ہے ۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں افراد بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سیاسی جماعتیں بھی بدلتی رہتی ہیں لیکن حکمت عملیوں کا تسلسل جاری رہتا ہے ہاں کہیں نوک پلک کی ضرورت سمجھی جاتی ہے تو کر لی جاتی ہے ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسی جامع حکمت عملیاں ترتیب کیسے دی جاسکتی ہیں ؟ ایک انتہائی بصیرت اور ذہین افراد پر مشتمل قومی مفاہمتی کونسل تشکیل دی جائے اور انکے ذمے بڑے بڑے کاموں کی بنیادی تیاری پر گہری سوچ بچار کیا جائے اور منصوبوں کی ملک کیلئے افادیت پر گہری توجہ دی جائے ۔ بنیادی طور پر ملک کی ضرورتوں اور عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھ کرلمبے عرصے کیلئے حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں ۔
تیسری دنیا کے ممالک کا جائزہ لیں تمام حکمت عملیاں سیاسی جماعتوں سے منسوب ہوتی ہیں ناکہ ملک کے مفادات کو خاطر میں رکھا جاتا ہے تھوڑا گہرائی میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی جماعت کا بنیادی منشور کسی شخصیت کا منظور نظر ہوتا ہے اور فرد واحد کی خواہشات کی تکمیل پر مبنی ہوتا ہے ۔دوسری طرف حکومتوں کا میعاد کا پورا نا کرنا بھی ایک سانحہ عظیم ہے ۔ اب ایسے حالات میں ہوتا کیا ہے کہ ہر نئی حکومت اپنے نام کی تختیاں لگانے اور اپنے اقتدار کے جھنڈے گاڑنے کہ چکر میں شہر کے شہر کھود کر ڈال دیتے ہیں جوکہ سال ہا سال کھدے رہتے ہیں اور عوام کی تنگیوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں جن سے ان سیاسی رہنماؤں کوکبھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں پاکستان سے محبت کا جذبہ بیدار کرنے والے برسر اقتدار آچکے ہیں ، یہ ابھی حالات ترتیب دے رہے ہیں ،انکا سب سے پہلا اور اہم ترین مقصد یہ ہے کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے اور بہترین حکمت عملی کے ذریعہ پاکستان کو آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ یہ ایک انتہائی گھمبیر کام ہے جس کے لئے حکومت کو انقلابی اقدامات کرنے ضرورت ہے اور وہ کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔
اس مضمون کو لکھنے کا اصل مقصد کراچی میں جاری میٹرو بس سروس اور لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبوں کی جانب حکومت یا ارباب اختیار کی توجہ دلانی ہے اور اس توجہ دلاؤ مضمون کی وجہ لاہور کا ایک نوجوان تحقیقی اور فوٹوگرافر صحافی سعدسرفراز شیخ کے انگریزی میں شائع ہونے والا فیچر ہے۔سعد سرفراز شیخ کا شمار پاکستان کے ان چند تخلیقی نوجوانوں میں ہوتا ہے جو اپنے شوق سے پاکستان کی بے رونق اور پھیکی پڑتی تصویر میں رنگ بھر نے کیلئے کوشاں ہیں۔سعدسرفراز شیخ نے اورنج لائن منصوبے پر بھرپور تحقیق کی اور آگاہ کیا ہے کہ یہ اربوں روپے کا منصوبہ جوکہ تقریباً نوے فیصد مکمل ہوچکا ہے جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ اب صرف نوک پلک کا کام باقی ہے لیکن موجودہ حکومت اس منصوبے پر دھیان نا دے کر قوم کے سرمائے کا نقصان کرنے کی مرتکب ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ موسمی تغیرات کی وجہ سے سامان کے خراب ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے دوسری طرف کانٹریکٹر کو اضافی رقم بھی دینی پڑ سکتی ہے جو کے کسی بھی طرح سے پاکستان کے حق میں فائدہ مند نہیں ہوسکتا ۔ بلکل اسی طرح سے کراچی میں میٹرو کا منصوبہ پچاس فیصد سے زیادہ مکمل ہوچکا ہے لیکن اب کام بہت سستی سے ہوتا دیکھائی دے رہا ہے ۔ ٹریفک کے مسلئے سے نمٹنے کیلئے یہ منصوبے شروع کئے گئے تھے تکمیل تک نا پہنچ پانے کی وجہ سے یہ ٹریفک کے مسائل میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔
ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ ان منصوبوں کی کیا ضرورت تھی یا ان کاموں کے بغیر یا اس سے کئی گنا سستے طریقوں سے ٹریفک کے مسائل سے نمٹا جا سکتا تھا ، ہمارے لئے پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ حکمتِ عملیاں اور منصوبوں کا تسلسل حکومتی تبدلیوں سے منسلک نا کیا جائے۔ جتنی جلدی ممکن ہوخصوصی طور پر اورنج ٹرین لائن منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچا کر پاکستانیوں کی خوبصورتی میں اضافہ کریں اور مثال قائم کریں کہ بوجود اختلافات اور مختلف بدعوانیوں کے حکومت نے عوام کے وسیع تر مفاد میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، ملک میں کہیں بھی منصوبے جاری ہیں حکومت جلد از جلد انکی تکمیل کو یقینی بنائے اور پاکستان اور عوام سے محبت کی دلیل ہے۔سعد جیسے نوجوانوں کی ملک سے محبت کو سراہا جانا چاہئے ، یہ ملک کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جستجو میں مصروف ہمیں انکی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔سعد سرفراز شیخ کا انگریزی میں اورنج لائن منصوبے پر شائع ہونے والے (مذکورہ بالا) فیچرکا لنک درج ذیل ہے۔