دلی کی حکومت 8 خاندان ترنور سے خاندان چوہان میں منتقل ہوئی۔ خاندان چوہان کے ساتویں بادشاہ کا نام ”رائے پرتھور ایاپرتھوی راج تھا وہ ہندوستان کا آخری ہندو بادشاہ ٹھیرااور اس کی بیوی سنجوگتا ہندوستان کی آخری ہندو ملکہ بنی۔ سنجوگتا دلی کی ہمسایہ ریاست قنوج کے را جہ جے چندرا ٹھور کی بیٹی تھی ۔ جے چند کی پرتھوی سے سخت دشمنی چلی آرہی تھی۔
باپ پرتھوی کا سخت دشمن تھا اور سنجوگتا پرتھوی پر جان دیتی تھی لیکن سنجوگتا نے پرتھوی کو دیکھا نہیں تھا البتہ اس کی شجاعت و بہادری کے بہت کارنامے سن رکھے تھے ۔ان ہی کارنامون نے سنجوگتا کو پرتھوی کا دیوانہ بنا رکھا تھا حالانکہ اسے یقین تھا وہ اسے کبھی نہ پا سکے گی ۔وہ اپنے باپ سے بات کرنے کی ہمت تو نہ کر سکی مگر اپنی اندیکھی چاھت سے ماں کو ضرور آگاہ کر دیا ماںیہ سنتے ہی پریشان ہو گئی۔قنوج کی مہارانی ہونے کے ناطے وہ بھی پرتھوی کو اپنا دشمن سمجھتی تھی ۔لیکن ماں ہونے کے ناطے اس نے ر ا جہ سے پرتھوی اور سنجوگتا کے رشتے کی بات کی ۔ر ا جہ یہ بات سنتے ہی بھڑک اُٹھا اور کہا۔
بھگوان کی سوگند میں سنجو کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دونگا مگر اس کی شادی پرتھوی سے نہیں کرونگا ۔” ایک نہ ایک دن ہم نے بیٹی کو رخصت تو کرنا ہے مہارانی ہمت کر کے بولی پرکھوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے بیٹیاں لے کر یا دے کر دشمنیاں ختم کی جاتی رہی ہیں ۔اگر ہم بھی ایسا کر لیں گے تو کوئی انہونی نہیں ہو گی۔”
را جہ نے جواب میں کہا اگر تم میری بیوی نہ ہوتیں تو تمہیں بتاتا ہونی انہونی میں کیا فرق ہوتا ہے ۔” رانی نے اپنی بیٹی کو اس کے باپ کے ردعمل سے آگاہ کر دیا اور کہا وہ پرتھوی کا خیال اپنے دل سے نکال دے ۔ادھر جب پرتھوی کو سنجوگتا کی محبت کی خبر ملی تو اس نے اس محبت کی قدر کی اور اس سے بالواسطہ رابطہ کیا اور اسے یقین دلایا کہ اسکی آن کی سوگند وہ اسے اپنی رانی بنا کر چھوڑے گا۔
راجہ جے چند ان معاملات سے بے خبر ہونے کے باوجود بحیثیت باپ فکر مند ضرور تھا وہ جانتا تھا کہ سنجوگتا ایک ضدی اور ہٹ دھرم لڑکی ہے اگر اس نے پرتھوی کو حاصل کرنے بارے سنجیدگی سے سوچ لیا تو کسی نہ کسی طور عمل بھی کر گذرے گی چنانچہ اس نے اپنے طور پر اس معاملے سے نمٹنے کی تدابیر شروع کر دیں۔اتفاق کی بات یہ تھی کہ قنوج کے راجہ کی حیثیت سے اس نے اکثر ہمسایہ ریاستوں کے راجائوں کو شکست دے کر اپنے زیر اثر کر لیا ۔اس خوشی میں اس نے ایک جشن عظیم کا اہتمام کیا ۔جسے ہندو ”راج سوجگ ” کا نام دیتے ہیںاس جشن میں دور اور نزدیک کے راجائوں کو دعوت عام دی جاتی۔
Love
اس دعوت میں میزبان مہمانوں کی خدمت خود اپنے ہاتھوں سے کرتا اور جواب میں وہ راجہ کی اطاعت قبول کر لیا کرتے ۔جشن کے ایک حصے کے طور پر سنجوگتا کے لیئے سوئمبر” یعنی دولہا چننے کے مقابلے کا بھی اہتمام کر ڈالا تاکہ ایک طرف تو دنیا کا سب سے بڑا راجہ بن جائے گا اور دوسری طرف سنجوگتا اور پرتھوی کی محبت کی صورت میں لاحق خطرے سے نجات حاصل کر لے گا ۔لیکن سنجوگتا نے جشن میں آ کر اعلان کر دیا وہ پرتھوی کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرے گی ۔راجہ کو بیٹی کی وجہ سے بہت شرمندگی ہوئی اس نے بیٹی کو محل سے نکال کر ایک حویلی میں بند کر دیا۔
جب پرتھوی کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے سنجوگتا کو اس قید سے نکالنے کا منصوبہ بنایا اس کے درباری چندر بھات نے منصوبے کے تحت جے چند کے دربار میں رسائی حاصل کی۔ یہاں تک کہ اسے سنجوگتا سے ملنے کی آزادی حاصل ہو گئی۔اس نے راجکماری کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا ۔قنوج کے چند فوجیوں کو رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور راجکماری کو لے اڑا ،جے چند نے اس کا پیچھا کیا لیکن اس وقت تک پرتھوی بھی قنوج کی سرحد تک پہنچ چکا تھا اس نے سنجوگتا کا والہانہ استقبال کیا۔
جے چند اور پرتھوی کے درمیان جنگ ہوئی۔ سنجوگتا نے پرتھوی کا پورا پورا ساتھ دیا اور باپ کے خلاف تلوار سونت کر مقابلہ کیا فتح سنجوگتا اور پرتھوی کے حق میں لکھی جا چکی تھی وہ گھوڑے پر پرتھوی کے ساتھ سوار تھی۔راجہ کی فوج نے اس کا بڑا پیچھا کیا مگر محبت کی رفتار فوجوں کی رفتار سے زیادہ تھی۔ جے چند نے کچھ دور تک پیچھا کیا پھر حوصلہ ہار گیا۔
پرتھوی سنجوگتا کو محل میں لا کر اتارنے میں کامیاب ہو گیا ۔دلی پہنچ کر اس نے سنجوگتا کے ساتھ سات پھیرے لے لیئے اور اسے اپنی ملکہ بنا کر عیش و عشرت میں ایسا مشغول ہوا کہ نظام سلطنت سے بھی غافل ہو گیا پرتھوی کی سلطنت سے غفلت کی خبریں شہاب ا لدین غوری تک بھی پہنچ گئیں جو اس وقت غزنی کا بادشاہ تھا ادھر جے چند نے بھی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ۔پرتھوی کا یہ حال تھا کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کوئی بھی اس کی اور سنجوگتا کی خلوت میں دخل نہ دے اور نہ ہی کوئی نا خوش گوار خبر اس کے گوش گذار کی جائے ۔لیکن غوری کی سپاہ اس کی سلطنت کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔
چنانچہ پرتھوی کے درباری چندر بھاٹ نے جو پرتھوی کا ہمراز اور ہم نیازبھی تھا اور سنجوگتا کا مزاج آشنا بھی تھا سنجوگتا کو حالات سے خبردار کیا اس نے چندر بھاٹ سے ملنے کی اجازت دے دی سنجوگتا نے وقت کی نزاکت کو سمجھا اور پرتھوی کو غوری کی صورت میں آنے والے طوفان سے آگاہ کیا لیکن اس وقت تک پانی سر سے گذر چکا تھا۔ غوری نے گذشتہ شکستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکمت عملی مرتب کی اختلاف رائے کے مطابق یہ غوری کا آٹھواں حملہ تھا ۔پرتھوی کو امید تھی وہ اس بار بھی غوری کو شکست دے گا وہ تھوڑا سا لشکر لے کر تراوڑی یا ترائن کے مقام پر پہنچ گیا ۔ راجہ جے چند جو پہلے ہر جنگ میں اس کا حلیف ہوتا تھا اس بار غوری کے ساتھ تھا ۔پرتھوی اس جنگ میں مارا گیا ۔اس طرح پرتھوی ہندوستان کا آخری ہندو حکمران ثابت ہوا اور اس کی بیوی سنجوگتا ہندوستان کی آخری ہندو ملکہ بنی۔
پاکستان کے نامور سائنس دان ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے اس بارے میں تحقیق کی اور شہاب الدین غوری کی قبر تلاش کر کے اس کا مقبرہ بنوایا پاکستان کے پہلے ایٹمی میزائل کا نام غوری رکھ کر بھارت پر ثابت کر دیا کہ جنگ ترائن دوبارہ بھی دہرائی جا سکتی ہے ۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس نے پہل نہیں کی تھی اس نے بھارت کے جواب میں کیئے تھے لیکن قوم کا مورال آسمان کو چھونے لگا ۔ایسے وقت میں دشمن بھی غافل نہیں ہوتا ،اس سچی کہانی میں کتنے سبق پوشیدہ ہیں ۔کہ اپنے دفاع سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیئے،امن اور دوستی کی خواہش ضرور رکھیں مگر دشمن کے ہاتھ میں نہ کھیلیں ،بھارتی وزیر اعظم نے ابھی سارے پتے شو نہیں کیئے مگر ابتدا سے ہی انتہا کا نشان مل رہا ہے جبکہ ہم قوم کو مزید غفلت میں ڈال رہے ہیں، امن کا سُوٹا ” ہماری مکمل تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
ابھی تو جانے کس لیئے خدا ہم کو سنبھلنے کا موقع دیئے جا رہا ہے ۔قلم کے مجاھد پلازے اپنے نام کروا کے میاں صاحب کو تھپکی اور قوم کو غفلت کی میٹھی نیند سلانے میں لگے ہیں گو سب جانتے ہیں کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں براہمنوں کی سرزمین پر ایک کم درجے کا ہندو اتنے بڑے ملک کا حکمران بن چکا ہے ۔جس کی سب سے بڑی تمنا اس کے ارادوں میں جھلک رہی ہے۔ایسے میں ہمیں اپنی قوم اور قوت کو یکجا کرنا پڑے گا ۔اس وقت قوم کو ایک مخلص قیادت کی ضرورت ہے نہ کہ ”اکھنڈ آریانا ” کی خواہش پالنے والوں کی ؟ایک اور کنفیوژن جو اس قوم میں جنم لے رہی ہے کہ جب بھی حالات سدھرتے نظر نہ آئیں ا” مارشل لا ” کو آوازیں دینے لگتے ہیں ۔اور اس بار یہ مطالبہ کافی شدت اختیار کر گیا ہے میں نے اپنے ہر پیج پر ایک سوال لکھا کیا آپ کو مارشل لاء چاہیئے اور تقریباً77 فیصد لوگوں کا جواب ہاں میں تھا۔
مجارٹی کو یہی شکایت تھی کہ اس گندی جمہوریت سے آمریت بہتر ہے ۔موجودہ حکومت دھاندلی سے آئی اس میں کوئی شبہ نہیں ۔لیکن وہ اگر عوام کی زندگیوں میں آسانی لاتی توشریف برادران پانچ سال نکال جاتے ۔لیکن ایک سال میں ہی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے زرداری بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کیش کرواکر اور امریکہ کی باقی ماندہ خواہشات پوری کر کے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔جنرل کیانی سے لوگوں کو زیادہ توقعات بھی نہیں تھیں۔ لیکن نشان حیدر پانے والے شہیدوں کے وارث جنرل راحیل شریف کو قوم کسی صورت رعایت دینے پر تیار نہیں ۔ان کے نزدیک قوم کے لیڈر کو بہادر اور پُر اعتماد ہونا ضروری ہے۔
نواز شریف ان دونوں صفات سے عاری ہیں ۔وہ ایک پکے بزنس مین ہیں اور بزنس مین کبھی لیڈر نہیں ہوتا وہ ہر چیز میں اپنا گھاٹا منافع پہلے دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ایک سال میں وہ صرف چند وزیروں ،چند بیوروکریٹس(جو انکی دھاندلیوں میں شریک ہیں) اور میڈیا کے چند اینکروں اور چند جید صحافیوں کو خریدنے کے سواکوئی کام نہیں کر پائے عوام کی تکالیف میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ابتک کھال اتاری جاتی رہی اب ہڈیوں سے یخنی نکالی جا رہی ہے۔
اسحاق ڈار تو اس قوم کے لیئے ایک ڈریکولا کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔وہ عوام کے منہ کا آخری نوالہ بھی چھین لینے کے قائل ہیں آج ہی کی خبر تھی امریکہ پاکستان سے گوشت کے لیئے زندہ جانوروں کی درآمد کا خواہش مند ہے اسحاق ڈار سمری منظوری کے لیئے پیش کر چکے ہیں ۔لگتا اب عوام گوشت بھی صرف خوابوں میں دیکھا کریں گے، ظاہر ہے زرمبادلہ تو حکمرانوں کی تجوریوں میں جائے گا ،جبکہ گوشت عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جائے گا ۔اس طرح کے جرائم اور مظالم کے بعد کوئی بھی انہونی ہونی میں بدل سکتی ہے۔