تحریر : روہیل اکبر کراچی میں امن وامان کے حوالہ سے حکومت کا کوئی بھی وعدہ وفا نہ ہوسکاآخر کار راؤ انوار کو دوبارہ اسی جبگہ تعینات کردیا گیا جہاں سے انہیں دوہفتے قبل بطور ایس ایس پی ملیر اس وقت انکو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جب انہوں نے ملزمان سے دوران تفتیش ہونے والی اہم معلومات میڈیا کے سامنے پیش کی جسکے بعد پورے ملک میں ایک طوفان آگیا مگر جیسے ہی راؤ انوار کوتبدیل کردیا گیا اسکے بعد خاموشی چھا گئی جسکے بعد اب یہ بات عام لوگ بھی کرنا شروع ہوگئے تھے کہ حکومتی ادارے تو اپنا کام کررہے ہیں مگر حکومت نہ جانے کہاں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ کام کرنا چاہتے ہیں انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا اور جو آرام پرست ،مفاد پرست اور حرام پرست ہوتے ہیں انہیں اہم عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے یا وہ خود کسی نہ کسی طریقے سے کوئی نہ کوئی اہم اعہدہ حاصل کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک میں جرائم کی شرع دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے اور آئے روز ہمیں کسی نہ کسی بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے
کبھی بلوچستان میں بسوں ویگنوں سے اتار اتار کر بے گناہ افراد کو شہید کردیا جاتا ہے تو کبھی ایک ہی پل میں کراچی میں بس پر فائرنگ سے 43سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتاردیاجاتا ہے حکومت ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے ، ریاست کا اولین فرض ہوتاہے کہ وہ شہریوں کو جان و مال کا تحفظ دے ،سیکورٹی ادارے بارہا دہشت گردی کے واقعات میں ’’را‘‘کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کرچکے ہیں مگر ابھی تک حکومت نے بھارتی حکومت سے باقاعدہ کوئی احتجاج کیا نہ عالمی برادری سے بھارتی تخریب کاری کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے کی اپیل کی کراچی میں اس المناک واقعہ سے قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر شہریوں کے تحفظ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بس پر حملے کا واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے سانحہ 12مئی کے بعد سانحہ 13مئی پیش آگیا ہے جس میں درجنوں معصوم مسافروں کو نشانہ بنایا گیا ہے
دہشت گردی کے خاتمہ اور پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کو دشمنوں سے پاک کرنے کیلئے اب کسی مصلحت کو خاطر میں نہ لایا جائے کیونکہ ’’را‘‘ اور اس کے ایجنٹوں کے خلاف قانونی گرفت میں ڈھیل کا نتیجہ ہے کہ ملک دشمنوں کو اپنے ناپاک عزائم پورے کرنے کا موقع مل رہاہے حکومتوں کی مٹی پاؤ پالیسی اور مفاد پرستانہ سیاست نے ملک بالخصوص کراچی کو آگ وخون کا سمندر بنادیاہے قانون کی حکمرانی اور سخت گیر پالیسیوں کے بغیر امن کا خواب پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتامگر لگتا ہے کہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح افسوس ،مذمتی بیانات اور دعوؤں کے سواء کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ ہماری روایت بن چکی ہے کہ جب بھی کوئی واقعہ رونماء ہوتا ہے تو اسکے بعد ایک نہ تھمنے والا مذمتی بیانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے لیکن متاثرہ خاندان کو ان مذمتی بیانات سے کوئی غرض نہیں انہیں اپنے پیاروں کے درندے قاتلوں کے کیفرکردار تک پہنچنے سے غرض ہے۔
Load Shedding
جبکہ دوسری طرف پنجاب سمیت پورے ملک میں بجلی کو لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا محال کررکھا ہے خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے انتخابات سے قبل عوام سے وعدے کیے تھے کہ وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ختم کر دیں گے اب دو سال اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد عوام سے ایک بار پھر نئے وعدے شروع ہوگئے ہیں کہ 2018 تک لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی کیونکہ اس وقت تک تو حکومت کی اپنی آئینی مدت بھی پوری ہو چکی ہو گی جو پالیسیاں پیپلز پارٹی دور میں چل رہی تھی انہی پر اب عمل کیا جارہا ہے دیہاتوں اورشہروں میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اس وقت ملک کے شہری علاقوں میں 10سے 12گھنٹے جبکہ دیہاتوں میں 15سے 18گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔
بجلی کی بندش کی بنا پر اکثر علاقوں میں پانی کی قلت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ملک میں توانائی کے جاری بحران کے باعث ملکی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے اورحکومت کے پاس توانائی کے بحران سے باہر نکلنے اوراپنے پاؤں پر کھڑاہونے کے لئے کوئی واضح پلان نہیں ہے جبکہ ان گذرے دوسالوں میں صرف کا غذوں میں بجلی شامل ہوئی ، کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا،حکومت نے اگر سنجیدگی کے ساتھ توانائی بحران پر قابو نہ پایا تو سالِ رواں میں حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی بری طرح سے متاثرہوگی۔
ملک میں اگر تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر توجہ دی جاتی تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ممکن تھا اوربجلی کی قیمتوں کو سستا بھی کیا جاسکتا تھا۔بدقسمتی سے موجودہ حکمرانوں نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام کو سہانے خواب دکھائے تھے اورتاحال اُن پر عمل درآمد کی نوبت نہ آسکی بلکہ مسلسل جھوٹ اورغلط بیانی پر مشتمل بیانات کی وجہ سے عوام کے اندر پائی جانیوالی بے چینی ، عدم تحفظ اورمایوسی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔