علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی 1974 سے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے اپنا کام کررہی ہے اور اس وقت لاکھوں طالبعلم گھر بیٹھ کر اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ہمارے باقی تعلیمی اداروں میں فیس کے ساتھ ساتھ وقت اور عمر کی بھی قیدہوتی ہے زیادہ عمر والا ان پرائیوٹ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوسکتے غریب لوگوں کے بچے اپنی فیسیں ادا نہ کرنے کے سبب تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں جبکہ اس وقت پورے ملک میں صرف علامہ اقبال اقبال اوپن یونیورسٹی ہی ہے جہاں انسان اپنی علم کی پیاس بجھا سکتا ہے یہاں پر پڑھنے کے لیے عمر کی قید ہے اور نہ ہی تعلیم کی بلکہ اب یہ کہا جائے کہ پیسے کی بھی کوئی قید نہیں تو غلط نہ ہو گا اس وقت ہمارے تعلیمی ادارے جس طرح تعلیم کو بیچ کر پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں اور ہمارے سیاستدان غریب عوام کو مزید جہالت کی دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے گذشتہ روز علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی لاہور ریجن کے دفتر میں جانا ہوا تو وہاں پر یونیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹرجناب احسن شکور سے ملاقات ہوئی۔
احسن شکور ایک نہایت ہی خوبصورت،ہنس مکھ اور دلربا شخصیت کے مالک ہیں جو اپنے اندر تعلیم کا درد اور عوام کا دکھ رکھتے ہیں سارا دن طالبعلموں سے ملنے کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھتے ہیں ان سے ملاقات انتہائی دلچسپ اور حیرت سے بھر پور رہی جو بغیر کسی لگی لپٹی سیدھی بات کہنے کے عادی ہیں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی ایسا قابل،محنتی اور درددل رکھنے والا شخص حکومت کی نظروں سے اوجھل رہے ایسے ہیروں کو تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں ایسی جگہوں پر تعینات کرنا چاہیے کہ جس سے عوام اور ملک ترقی کے زینے تیزی سے طے کرنا شروع کردے احسن شکور کا تعلق لاہور کی ایک بزنس مین فیملی سے ہے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے بھائی اپنی تمام کامیابیوں کے پیچھے والدین کی دعاؤں کا اثر سمجھتے ہیں مگر محنت پر بھی یقین بہت ہے 1972 کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے سینٹ انتھونی سکول سے میٹرک،ایف سی کالج سے بی ایس سی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے فنانس کیا اور پھر اسی یونیورسٹی میں 8سال تک پڑھایا بھی اسکے علاوہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد،یونیورسٹی آف لاہور،یونیورسٹی آف وٹرنری سائنس،ہجویری یونیورسٹی اور آئی سی ایم اے لاہور اور فیصل آباد میں درس وتدریس سے وابسطہ رہے فن تقریر سے بخوبی واقف ہیں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد بیڈ منٹن کے کھیل میں بھی جھنڈے گاڑ چکے ہیں،
کتاب بینی کا شوق حد سے زیادہ ہونے کے باعث گھر میں ہی ایک بڑی لائبریری بنا رکھی ہے،بچپن میں ریاضی سے دوری اور کمپیوٹر سائنس کو دل کے قریب پایا مگر بعد میں ڈبل میتھ کے ساتھ بی ایس سی کی۔غربت کو بہت قریب سے دیکھابسوں اور ویگنوں سفر کیا پیدل چلنے میں اب بھی فخر محسوس کرتے ہیں پڑھائی کے دوران اخراجات پورے کرنے کے لیے ٹیوشنز بھی پڑھائیں۔2001میں گھر والوں کی پسند سے شادی ہوئی شرمیلے اتنے کہ بیوی کوسہاگ رات ہی پہلی بار دیکھااور پھر لاکٹ کا تحفہ دیاشریک حیات بھی شعبہ درس و تدریس سے وابسطہ ہیں ایک بیٹا علی احسن اور ایک بیٹی مہہ روش ہیں محبت کی شادی پر یقین نہیں رکھتے اسے ایک ڈھکوسلہ کہتے ہیں شادی کے بعدانڈرسٹینڈنگ کے نتیجہ میں ہونے والی محبت کو اصلی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت میں زیادہ کردار والدہ کا ہوتا ہے اگروہ انپڑھ ہو تو پھریہ ذمہ داری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ادا کرتی ہے تعلیم کے لیے وقت اور عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔
مستقبل میں ایل ایل بی شروع کرنے کا پروگرام ہے تعلیم کا پیشہ مقدم ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مقدس بھی ہے اور ہر انسان نے اپنے پیشے کے اعتبار سے اپنی عزت خود بنانی ہوتی ہے بلخصوص استاد کی عزت آج بھی باقی تمام شعبوں سے زیادہ ہے استاد کی اہمیت کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی سکولوں میں مار نہیں پیار کے سلوگن نے پڑھائی کے نظام میں تھوڑی سی تبدیلی کردی ہے بچوں میں اب اساتذہ کا ڈر ختم ہوچکا ہے اور استاد کی دلچسپی بھی کم ہوچکی ہے اب وہ صرف اپنی عزت کو بچانے میں مصروف ہیں کیونکہ جہاں جزا وسزا کا عمل ختم ہوجائے وہاں معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں کلاس میں ٹیچرز کو ہمیشہ تیاری کرکے جانا چاہیے اگر تیاری نہ ہو تو پھر کلاس میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ کسی بھی طالبعلم سے کوئی ایسا سوال سامنے آجائے اور تیاری نہ ہو تو اسکا اثر اچھا نہیں پڑتا آج کا طالبعلم بگڑ چکا ہے موبائل کے استعمال سے بے ادب بھی ہوچکا ہے جس کے غلط استعمال سے نوجوان نسل اخلاقی تباہی کا شکار ہورہی ہے ہمارے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کو طالبعلم چلاتے ہیں۔
پرانے ٹیچرز کے چلے جانے سے ہمارے سرکاری سکولوں میں تعلیم کا معیار گرگیا ہے اورسرکاری یونیورسٹیوں میں پرو وی سی لگانے میں کوئی حرج نہیں مگر کام ہونا چاہیے اگر چھ بھی لگادیں اور نتیجہ صفر رہے تو پھر ایک کو ہی لگا دیا جائے جو نیک بھی ہو تاکہ کام چلتا رہے نہ کہ سیاست شروع ہوجائے اسکے ساتھ ساتھ ہر تین ماہ بعد ادارے کے سربراہ کی تبدیلی سے بددلی پھیلتی ہے ہمارے شہری اور دیہاتی نظام تعلیم میں زمین آسان کا فرق ہے اور بے شمار خرابیاں ہیں پرائمری کا سارا سلیبس ختم ہونا چاہیے پانچویں جماعت سے مادری زبان پنجابی کو سلیبس میں شامل کیا جائے قران پاک کو پہلی جماعت سے ترجمہ کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ بچہ میٹرک تک ایک قران مجید ختم کرلے ہمارے تعلیمی اداروں میں کیرئر کونسلنگ کی ضرورت ہے جہاں بچوں کے ساتھ ساتھ انکے والدین کی بھی تربیت کی جائے کیونکہ والدین بچوں کو کچھ بنانے کے لیے انکی شخصیت کو خراب کردیتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں رائٹ پرسن رائٹ جاب نہیں ہم پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کو ضائع کررہے ہیں کیونکہ انکا کام صرف ریسرچ کا ہے اور یہ شعبہ ہمارے پاس ہے ہی نہیں ایڈمنسٹریٹر اور پڑھانے والی جگہوں پر انکی بلکل ضرورت نہیں۔
زبردستی کے بنے ہوئے ڈاکٹر مریضوں کو مار رہے ہیں،بے روزگاری خود پیدا کی ہوئی ہے اور بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ٹھیک کرلے مگربرائیوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ناسور بن چکا ہے ہمارا تعلیمی نظام مغرب کو تقویت دینے کے لیے بنا ہوا ہے احسن شکور کا اس حوالہ سے بھی موقف بڑا مضبوط ہے کہ انجینئرز اور ڈاکٹرز کو سی ایس ایس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جس کام کیلیے حکومت نے ان پر پیسہ لگایا وہ سب ضائع ہوجاتا ہے خواتین ڈاکٹر بن کر پریکٹس نہ کرکے بھی مستحقین کا حق مار رہی ہیں آخر میں جناب احسن شکور کا کہنا تھا کہ انسان جو سوچتا ہے ضروری نہیں کہ وہ پورا بھی ہوکچھ جگہ اللہ تعالی کی مرضی بھی ہوتی ہے اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی محنت بھی جاری رکھنی چاہیے اللہ تعالی کسی کی محنت کو رائیگان نہیں جانے دیتے۔