تحریر: شاہ بانو میر پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک سرائے میں ٹھہرے ہوئے تھے اتنے میں ایک مسافر روتا پیٹتا باری باری سب کے پاس جا رہا اور دہائی دے رہا کہ اسکا سامان چوری کر لیا گیاـ لوگوں نے اسکو کہا کہ سرائے میں 4 مسافر اور ٹھہرے ہوئے ہیں تم ایسا کرو کہ کہ شہر کے قاضی کے پاس جا کر اپنا مقدمہ پیش کرو۔
دوسرے دن وہ آدمی گیا اور قاضی کو سارا ماجرہ جا سنایاـقاضی نے چاروں مسافروں کو طلب کیا اور تفتیش کی لیکن وہ کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا۔
آخر اس کو ایک ترکیب سوجھی اس نے چاروں مسافروں کو الگ الگ کمروں میں قید کیا اور چاروں کو ایک لکڑی دی اور کہا کہ اس نے اس لکڑی پر ایسا عمل کروایا ہے جس سے جس نے سامان چوری کیا اس چور کی یہ لکڑی 2 انچ چھوٹی ہو جائے گی۔
General Raheel Sharif
لہذا کل صبح ہوتے ہی مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جائے گا ـ دوسرا دن شروع ہوا تو شہر کا شہر امڈا ہوا مقدمے کا دلچسپ فیصلہ سننے ،کیلیۓ قاضی آیا اور چاروں ملزم اس کے سامنے پیش کئے گئے۔
قاضی ایک کے پاس گیا اس سے لکڑی لی اس کو بغور دیکھا دوسرے کے پاس گیا اس ے لکڑی لی پھر تیءسرے پھر چوتھےکے پاس ـ چاروں لکڑیاں ہاتھ می لے کر اس نے بآوازِ بلند کہا کہ تیسرے نمبر والا مسافر چور ہے۔
لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ قاضی کو کیسے پتہ چلا کہ وہ چور ہے؟ قاضی نے چاروں لکڑیاں لوگوں کو دکھائیں اور کہا کہ میں نے کوئی عمل نہیں کیا تھا کہ مجھے چور کا پتہ چلے میں نے تو ایک ترکیب لڑائی اور وہ کامیاب ہو گئی لیکن کیسے؟ چاروں لکڑیوں میں ایک لکڑی چھوٹی تھی چور نے سوچا کہ وہ دو انچ لکڑی کاٹ دیتا ہے تا کہ صبح جب اسکی لکڑی بڑھے تو دو انچ جو کاٹی وہی اسکی لمبائی کو پورا کر دے۔
یوں کٹی ہوئی لکڑی اور قاضی کی ذہانت نے چور کو پکڑوادیا نجانے کیوں کل کسی سابقہ صدر کی پرسکون مفاہمتی طبیعت ایک دم جولانی پے یوں آئی کہ گویا وہ لکڑی ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے دو انچ کاٹ چکے اور لطیف کھوسہ کے بعد وہ لکڑی بڑہی نہیں بلکہ چھوٹی ہو کے جرم کا سراغ دے گئی۔