کھودا پہاڑ نکلا چوہا

Budget

Budget

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
چند روز قبل پراپیگنڈے کا طوفان برپا رہا کہ معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ اس لیے بجٹ عوام دوست ہوگا مگر “واردات”اس کے بالکل الٹ کرڈالی گئی ہے۔بجٹ مایوسی کی دکھ بھری داستان اور غریب عوام پر ڈرون حملہ ہے اس سے خود کشیاں بھی بڑھیں گی ” کھودا پہاڑ نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا”ضرب المثل بالکل ہمارے نئے بجٹ پر صادق آتی ہے 25 لاکھ اور12 لاکھ روزانہ خرچہ ایوان وزیر اعظم وایوان صدر کا مقرر اور35 لاکھ روزانہ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کا ہو گا۔عوام الناس ایسے تمام سر براہی عہدوں پر چوکوں گلیوں میں لاکھوں کروڑوں دفعہ لعنت ملامت کر رہے ہیں کہ دو عہدیدار روزانہ 72لاکھ ہڑپ کر جائیں گے بجٹ سے 16سو ارب روپے تو صرف بیرونی سامراجی قرضوں اور سود در سود کی مد میں ضائع ہوجائیں گے یعنی عوام کی خون پسینے کی کمائیوں سے سامراجی سودی ادارے 1600ارب روپے دھونس دھاندلی اور غندہ گردی سے چھین جھپٹ کرلے جائیں گے۔ شہادتیں اور قربانیاں دینے والی افواج کی تنخواہوں میں20فیصد اضافہ کرنا قابل تحسین عمل ہے جب کہ دیگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پنشنوں میں صرف 10فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔

کلرکوں و دیگر ملازمین کے احتجاجوں کو پرِکاہ جتنی بھی وقعت نہیں دی گئی نئے بجٹ کا دیوہیکل جن خونخوار شیطان کے روپ میں اُس وقت غریبوں کا خون چوسنے کے لیے وارد ہو گیا ہے جب کہ رمضان المبارک میں تو تمام شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں مہنگائی کاشیطان کھلا ہی نہیں رہ جاتا بلکہ اسے اپنی من مرضیاں کرتے اونچی چھلانگیں لگانے دی جاتی ہیںاور اس کی امداد کے لیے ملک کی ساری بیورو کریسی ،جاگیردار وڈیرے اور سود خور نو دولتیے صنعتکار طبقات نکل پڑتے ہیں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز حرام خوری کرتے ہوئے ہمہ قسم فروٹ اور روزہ رکھنے کھولنے کے لیے ضروری اشیاء شربت چینی کھجور بیسن لیموں سٹاک کرکے ا ن کی عارضی قحط سالی پیداکردیتے ہیں بازاروں سے ایسی چیزوں کا ملنا مشکل ہوجاتا ہے حکومتی رمضان بازار فلاپ ڈرامہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے کہ گلے سڑے فروٹ اور سبزیاں ہی وہاں بکتی ہیں اور سرکاری عملہ ان کی حفاظت پر مامور۔ذاتی تشہیرکیلیے وزیراعظم وزرائے اعلیٰ و دیگر شہزادگان کے فوٹوز وہاں چسپاں کرکے ایسا تاثر ابھارا جاتا ہے جیسے یہ سب رعاعتیں “ان بڑوں کی ذاتی جیبوں سے دی جارہی ہوں۔مہنگائی نے پہلے ہی غریب عوام کا کچومر نکال رکھا ہے اب رمضان المبارک میں ضرور ی خوراک مہیا نہ ہونے کی وجہ سے روزوں سے مسلمانوں کا تیسرا حصہ محروم رہ جائے گاکہ پہلے ہی ساٹھ فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور محض ہیں۔اسی لیے ڈیڑھ کروڑ بچے سکول نہیں جارہے کسانوں کے احتجاج پر آنسو گیس ،لاٹھی چارج مار کٹائی زخمی کر ڈالنابجٹ کے اعلان کے موقع پر قابل مذمت ہے ساری اپوزیشن نے کسانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اسمبلی کا بائیکاٹ کیا زرعی کھادیں بھارت کی نسبت تین گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرکے کارپرداز اربوں کمارہے ہیں نیا بجٹ بھی ان کی قیمت کم نہ کرسکا۔

حکمرانوں کی سود( جسے خدا اور رسول اکرمۖ کے خلاف کھلی جنگ قراردیا گیا ہے ) کی سرپرستی سے بھی ملک عذاب میں مبتلا ہے کہ سود لینے والے ،دینے والے اگر ستر دفعہ اپنی سگی ماں سے زنا کرلیں تو بھی سود والا گناہ اور جرم بڑا ہے ایسی صورتحال میں جہاں صرف غریبوں کے خون کا آخری قطرہ چوس ڈالنے کی تیاریاں بذریعہ سودی لین دین ہورہی ہوں وہاں رحمت کے فرشتے ایسی سرزمین پر کیسے اتر سکتے ہیں؟ بجٹ کے ذریعے سارے عوام کو بدترین سودی عمل میں ملوث کرکے سخت گناہ گار کرڈالا گیارمضان المبارک میں تو ویسے ہی حرام خور ذخیرہ اندوزسود خور طبقہ ہر چیز کو مہنگا کرکے بیچتا ہے مگر اب تو ان کے تحفظ والا بجٹ نافذ ہوگیا ہے ۔پاکستانی بجٹ تو ہمیشہ سے ہی اعدادو شمار کا گورکھ دھندا رہا ہے زرداری گیلانی راجہ رینٹل وغیرہ لوٹ کر لے گئے جنرل مشرف ملک کو دیوالیہ کرکے چلتا بنا شریفین نے ملکی معیشت کی جڑیں ہی کھوکھلی کر ڈالیں ۔ذاتی من پسند مدات میں کھربوں خرچہ شو کرکے بیرون ملک بنک بھر لیے فلیٹس پلازے بنائے اور فیکٹریاں لگالیں عمران خان کے ساتھ موجود صنعتکار نودولتیے سرمایہ دار اور وڈیروں کی فوج اب لوٹنے کے لیے کمر کس رہی ہے۔فیصل آباد کے بیروزگار مزدور خود کشیوں پر تلے بیٹھے ہیں۔

بیورو کریٹوں کا بنایا ہوا بجٹ ان کے اپنے مفادات سمیٹنے کا انتظام ہے انھیں کیا پتہ کہ غریب مزدور کسان کن مشکلات کا شکار ہے متناسب نمائندگی بلحاظ تعداد طبقات کے تحت انتخابات ہی نچلے طبقے کے افراد کو مقتدر کرکے مسائل حل کر سکتے ہیںبجٹ میں ایک ہزار ارب روپے ترقیاتی سکیموں اور اتنے ہی کسانوں کی فلاح و قرضوں کے لیے رکھے گئے ہیںالیکشن کے قریب یہ رقوم اگر اڑھائی سو قومی اسمبلی کے حلقوں پر تقسیم ہوں تو ترقیاتی کاموں کے اعلانات سے بھی ووٹر متاثر ہوگااور کسانوں کو قرضے دینے والے ایک ہزار ارب روپے اگر اڑھائی سو قومی اسمبلی کے حلقوں پر تقسیم ہوں تو فی حلقہ چار ارب روپے بنتے ہیںچالیس ہزار ووٹوں کو خریدنے کے لیے فی کس ایک لاکھ روپیہ موجودہو گا۔قرضوں کے نام پر یہ بندر بانٹ جیت کا سامان پیدا کرسکتی ہے اگر مفلوک الحال لوگ گلی کوچوں محلوں چکوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکل پڑے تو بذریعہ ووٹ اقتدار کی کرسیاں نام نہاد کرپٹ سیاسی ٹولوں اور ان کے حواریوں سے چھین کر ملک کو فلاحی مملکت بنا کر غربت مہنگائی بیروزگاری کا خاتمہ کر سکیں گے۔

Dr Mian Ihsan Bari

Dr Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری