میں یہ منظر نہیں دیکھنا چاہتا تھا…کبھی بھی نہیں لیکن میں کیا کروں کہ میڈیا کا ” پروپگنڈا” میری راہ میں حائل ہو گیا۔ آخر کب تک ہمیں ہمارے ناکردہ گناہوں کی اتنی کڑی سزا دی جاتی رہے گی؟ آخر کب تک ”کرتا کوئی رہے گا بھرتا کوئی اور۔ شعلوں میں گھرے مظلوم وجو د کو دیکھنے کی تاب کس میں ہو گی؟ کوئی والدتو یہ منظرکبھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ تو کبھی بھی نہیں جس کی اپنی ایک معصوم سی بیٹی بھی ہو جو ابھی چھ سال کی بھی نہ ہوئی ہو۔ آپ ہی بتائیں کیا اس سے یہ منظر کبھی دیکھا جائے گا؟ میں کیا سوچوں، کیا سمجھوں۔۔
ہماری جان پہ دوہر ا عزاب ہے محسن کہ صرف دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے
کیا کوئی مجھے اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ ایسے مناظر، ایسے واقعات اور ایسے حالات ایک باپ کے لئے کیا پیغام لاتے ہونگے ؟ میڈیا کو ایک کہا نی مل گئی ،اخبارات کے ہاتھ چند روز کے لئے لیڈ ا ور سپر لیڈ سٹوری آگئی ، بڑبولوں کو ایک بنا بنایاموضوع میسر آیا، نیوزاینکرز کو ایک چٹ پٹا ٹاپک نصیب ہوا، کالم نگاروں کو ایک زبردست کالم کا موادملا۔اپوزیشن پرپروپگنڈے کی ڈگڈگی بجانے اورسیاسی پوائنٹ اسکورننگ کیلئے میڈیا ہاؤسز کا من پسند دروازہ کھلتا چلا گیا،مغربی دنیا اور ملک دشمنوں کوانسانی حقوق کے حوالے سے دل کے پھپھولے پھوڑنے اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دینے کو ایک اوردلیل مل گئی اور ہماری شریف حکومت کو قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے اورآئین شکن عناصرسے آہنی سے نمٹنے کے آہنی عزم کا اظہار اور اسے دوبارہ یاد کرنے اور قوم کو یاد دلانے کا ایک اورنادر موقع ملا۔۔۔ اور مجھے اور مجھ ایسے لاکھوں،کروڑوں عام انسانوں،عام پاکستانیوں کو کیا ملا ؟ ڈر، اندیشے، وسوسے، ایک مسلسل خوف اور عدم تحفظ کا ہر دم بڑھتاہوا شدید احساس کہ سانس جس سے گلے میں رکتی محسوس ہو ۔۔۔۔۔۔ آخر ہمیں کس جرم کی سزا قسط قسط دی جا رہی ہے اور قرض ہے کہ سود کی رقم کی طرح مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے صاف اور بے باق ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
Law
ایک عام پاکستانی کیا یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہاسو پیاز بھی اسی نے کھانے ہیں اور سو جوتے بھی اسی کا مقدر ہیں ۔جن کو ووٹ دیکر بھیجا تھا انکا مقصد صرف پاور میں آنا تھا،سو آگئے۔اب کوئی بے آبرو ہو ،اغوا کیا جائے، بم دھماکے میں اس اڑے، یا خود کو آگ لگا کراپنا جیون گنوائے انکی بلا سے۔ابھی تو تھر کا نوحہ کانوں میں گونجتا تھا ،ابھی تو چولستان میں بھی ایسی ہی کسی کہانی کی صدائیں کانوں کے بہت قریب محسوس ہوتی تھیں …..ابھی ہم سنبل کو ہی بھلا نہیں پائے تھے کہ یہ نیا المیہ سامنے آگیا۔۔۔لیکن یہ نیا بھی کہاں ہے ۔۔۔کردار نئے ہیں کہانی تو وہی ہے۔۔۔وہی صدیوں پرانی کہانی کھٹن زدہ ،بدبودار،گلے سٹرے،منافقانہ ماحول کی کہانی ۔۔۔سوائے کرداروں کے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔وہی عزتیں لٹواتے مظلوم،وہی عزتیں لوٹتے درندے ،وہی گنگ مقامی انتظامیہ،وہی پشت پناہی کرتے مقامی چٹی دلال،وہی اپنی توند میں نوٹ بھرتے سیاہ کار پولیس والے،وہی کالے کوٹوں والے ہتھ چھٹ وکلاء، وہی انصاف کی کرسی پر بیٹھ کرانصاف کا خون کرتے منصف، وہی غافل و لاتعلق حکومت ، وہی ڈرامے باز اپوزیشن ،وہی دھواں چھوڑتے اور کرنٹ مارتے کرنٹ افیئرز کے پروگرام، وہی چیختی چنگھاڑتی اخباری سرخیاں اور وہی خود کو آگ لگاتی بے بس و لاچار حوا زادیاں۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔۔۔۔۔نہ کچھ بدلنے کی کوئی سبیل نظر آتی ہے۔۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ایک مظلوم اگر انصاف کا طالب ہو تو وہ کہاں جائے ۔۔۔۔کیا کوئی ایسی جگہ ہے جہا ں سے اسے انصاف تو رہا ایک طرف تسلی ہی مل سکے۔
شاہ زیب ایشو میں بدترین قومی شکست کے بعدمیں نے یہ تہیہ کیا تھا کہ کبھی ایسے ایشو پر نہیں لکھوں گا۔اور اس پر لکھنے کا فائدہ ہی کیا کہ انصاف سے لیکر حکومت تک ہر ایک چیز ان ہی کے ہاتھ میں ہے کہ جو وسائل پر قابض اور مسائل کی واحد وجہ ہیں۔۔ایسے میں سوائے دعا کے اور کیا ہی کیا جا سکتاہے۔حکومتی لوگوں کو جشن منانے ،مذاکرات مذاکرات کھیلنے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے سے فرصت ہو تو کچھ اور کرنے کا سوچیں ۔اگر سوچنے کی مہلت ملے بھی تو یہ دنیا پرست لوگ وہ نادرالوجود انسان ہیں کہ جن کی ہمتیں ان کے پیٹ تک محدود ہیں اور جن کی نظریں اپنی ذات سے آگے دیکھنے سے عاری ہیں ۔ غیر حکومتی سیاست دان ایسے میں شراب کی بوتلوں پر نہ الجھیں تو اور کیا کریں کہ میڈیا میں زندہ بھی تو رہنا ہے ۔ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔
صرف اپنی زندگی کی۔۔۔۔۔ایسے میں جو زمین کا” بوجھ” ہیں ان کا بوجھ اٹھائے بھی تو کون۔۔۔۔وہ خود کوآگ لگا کر پیوندِ زمیں نہ بنائیں تو اور کیا کریں۔اندر لگی آگ جب نہیں بجھے گی تو کیا وہ پھیل کر باہر نہیں پہنچے گی؟ باہر آئی تو پتہ چلا کہ کوئی جلا ہے اور اندر تک جلا ہے ۔یہ اور بات کہ ہو گا اس سے بھی کچھ نہیں۔۔۔۔سوائے اس کے کہ خود کو نمونہ عبرت بنا لیا جائے۔
عبرت سے سبق وہ لیتے ہیں جنہیں حکمت سے کچھ علاقہ ہو ۔۔۔۔جو حماقت کے حامل ہوں اور اس پر قانع بھی۔۔۔۔۔۔انہیںکچھ بھی تو ہاتھ نہیں آتا سوائے شرمندگی،افسوس، پچھتاوے اور ملال کے۔۔۔۔۔لیکن اکثر کو تو یہ احساس تب ہوتا ہے جب فرعون کی طرح جان لبوں تک آچکی ہوتی ہے اور دم نکلنے کا دم ہوتا ہے۔۔۔اس ستم رسیدہ کو ناجانے کس نے یہ راہ دکھائی کہ خود کو آگ لگا دی اور اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ختم کر ڈالے ۔شاید اس طرح اس کی داد رسی ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔کاش جانتی ہوتی کہ
یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے
میرا حکومتِ وقت سے پر زور مطالبہ ہے کہ اس واقعہ کی آزادانہ و غیر جانبدارانہ تحقیقات بالکل بھی نہ کرائی جائے۔ایسی تحقیقات کا فائدہ ہی کیا کہ مظلوموں کی داد رسی کی بجائے انکی تذلیل ہو اور ظالموں کو اکڑ کر وکڑی کانشان بنا کر قوم کا سینہ جلانے کا موقع ہاتھ آئے۔بھاڑ میں جائیں ایسی تحقیقات کہ ”ڈگریاں”کسی کو ملیں اور تھیسزکسی اور کا مقدر ہوں۔ اور تھیسز بھی کس شان کے کہ کاغذوں کا یہ پلندہ کباڑی بھی نہ اٹھائے۔خدا را اپنا قیمتی وقت برباد نہ فرمائیں ۔ہم اسی حال اور اپنی کھال میں خوش ہیں کہ بزرگ کہہ گئے ہیں۔
اچھے ہیں وہی لوگ جو ہر حال میں خو ش ہیں
Safder Hydri
تحریر : صفدر علی حیدری ای میل : (sahydri_5@yahoo.com)