: ایک عظیم الشان اور بے مثال کردار ؟

Prophet Mohammad peace be upon him

Prophet Mohammad peace be upon him

انسانوں کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انھیں نیکی اور بدی میں تمیز سکھائی جائے ۔ ان میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں انھیں دور کر کے نیکی کا رستہ دکھایا جائے۔ ان کی اخلاقی حالت کو بہتر بنا کر انھیں پاکیزہ کردار کا مالک بنایا جائے۔ اس مقصد کے لئے وعظ و نصیحت کے ساتھ لازم ہے کہ ان کے سامنے بلند اخلاق اور پاکیزی کردار کا ایسا کامل نمونہ پیش کیا جائے جس کی پیروی کر کے وہ اپنی زندگی کو سنوارسکیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تمھارے لئے بہتر ین نمونہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر ہی انسان بلند اخلاق کا مالک بن سکتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق اس قدر بلند تھے کہ دوست تو دوست بد تر دشمن بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ جانی دشمنوں کو معاف کردینا ، غلاموں اور کنیزوں سے اچھا سلوک کرنا ، بیماروں کی عیادت کرنا ، کمزوروں اور ضعیفوں کو سہارا دینا اور اپنے پرائے سبھی کے ساتھ شفقت اور نرمی کا برتاؤکرنے کی بے شمار مثالیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہیں۔

ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کنیز کو دیکھا جو رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ بولی میری مالکہ نے مجھے سودا لینے بھیجا لیکن مجھ سے رقم کھو گئی ہے اس لیے میں پریشان ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو رقم دے دی اور آگے روانہ ہو گئے۔ تھوڑی دور جا کر مڑ کر دیکھا تو وہ کنیز بدستور رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پاس بلاکر پوچھا کہ اب کیوں رو رہی ہو ؟ اس نے کہا مجھے بہت دیر ہو گئی ہے اتنی دیر سے گھر جاؤں گی تو گھر والے سزا دیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت ترس آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ گھر والوں کو سلام کیا اور فرمایا اس لڑکی کو سزا کا ڈر تھا اس لیے میں اس کے ساتھ آیا ہوں گھر والے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف اوری سے اتنے خوش ہوئے کہ انھوں نے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔

حضرت زید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے غلام تھے۔ اس زمانے میں غلاموں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید کو اولاد کی طرح رکھتے تھے۔ کچھ مدت بعد جب زید کے والد اور چچا کو پتا چلا کہ ان کا بیٹا مکہ میں ہے تو وہ اسے واپس لے جانے کے لیے مکے آئے اور انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا بیٹا ہمیں دے دیں تو آپ جو معاوضہ مانگیں گے ہم دینے کو تیا ر ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا ن کو بات کو غور اور توجہ سے سنا اور فرمایا میں لڑکے کو بلاتا ہوں اگر وہ آپ کے ساتھ جانے پر آمادہ ہو ا تو کسی معاوضے کے بغیر آپ اسے لے جا سکتے ہیں۔ زید کو بلایا گیا اور ان کو ساری بات بتا کر ان کی مرضی پوچھی گئی تو زید نے فوراََ جواب دیا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر کسی کے پاس جانے کو تیا ر نہیں ہوں زید کے والد اور چچا نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو! زید نے جواب دیا ”میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک سے اس قدر متا ثر ہو ا ہوں کہ اب میں کسی دوسرے کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ترجیح نہیں دے سکتا یہ جوا ب سن کر زید کے والد اور چچا انھیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بخوشی چھوڑ کر واپس چلے گئے۔

اپنوں سے حسن سلوک کی مثالیںتو بہت ملتی ہیں لیکن جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و در گزر اور حسن سلوک کی جو مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر قائم فرمائی اور فاتحین کی پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔

Islam

Islam

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں اسلامی لشکر ابھی مکے میں داخل نہیں ہوا تھا کہ ایک صحابی نے ابو سفیان کو پکڑکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے ۔ یہ ابوسفیا ن وہی تھے جنھوں نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بد ترین دشمن رہے تھے۔ حضرت عمر نے ابوسفیان کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ اس دشمن اسلام کا سر اڑا دے لیکن رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں سختی سے منع فرمایا۔ ابوسفیا ن نے معافی طلب کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نا صرف ان کے سارے جرم معاف فرما دیے بلکہ یہ اعلان بھی فرما دیاکہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے بھی معاف کر دیا جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن سلوک دیکھ کر ابوسفیان مسلمان ہو گئے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکے میں داخل ہو ئے تو کافر ڈر رہے تھے کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بدلہ لیں گے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھا ئے، وہ بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی، وہ بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں اور بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا۔ وہ بھی تھے جنھوںنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے ننگی تلواریں لیکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا تھا ۔ میں ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جس نے جنگ اُ حد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ کا کلیجا چبایاتھاان میں ہندہ کا وہ غلام بھی تھا جس نے دھوکے سے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا۔ آج ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم یاد آ رہے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ان کے جرائم کی سز ا انھیں دیتے تو دنیا کے کسی قانون یا اخلاق کے خلاف نہ ہوتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمتہ اللعالمین تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے مثال عفو و درگز سے کام لیتے ہوئے ان سارے دشمنوں کو معاف کر دیااور فرمایا ” آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائیگا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو ”۔
یہ سننا تھا کہ سب لوگوں کے دل پگل گئے اور انھوں نے اس وقت اسلام قبول کر لیا۔ نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت ساری مخلوق پر سایہ فگن ہے۔ اس رحمت عام سصرف انسان ہی نہیں حیوان بھی فیض پاتے ہیں۔

Arab Animals

Arab Animals

عرب کے لوگ جانوروں پر طرح طرح سے ظلم کرتے تھے۔ جانوروں کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے ۔ ان کی طاقت سے بڑھ کر کام لیتے تھے۔ زندہ جانوروں کے بدن سے گوشت کا لوتھڑا کاٹ کر پکا لیتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جانوروں کو باندھ کر ان پر نشانہ بازی کی مشک کیا کرتے تھے ۔ یہ ظالمانہ کام ان کے مشاغل میں تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام رسموںکو سختی سے بند کر دیا اور فرمایا کہ جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور ان کے چارے پانی کا خیال رکھو ۔
ایک مرتبہ ایک صحابی نے کبوتری کے گھونسلے سے ا س کے ننھے منے بچے اٹھا لیے ۔ کبوتری اس صحابی کے سر پر منڈلا رہی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت دکھ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کو حکم دیاکہ وہ کبوتری کے بچے کو واپس گھونسلے میں رکھ دے۔ صحابی نے حکم کی تعمیل کی ۔

بنی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور عفو و درگزر کی چند مثالیں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی کتابوں میں اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پر چلیں اور مخلوق خدا کے ساتھ نرمی ،محبت اور حسن سلوک کا رویہ اپنائیں ۔ اس میں ہماری دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔

لیکن آج کل ہم مسلمان کم بلکہ فرقہ پرست زیادہ کہلانا پسند کرتے ہیں ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس حد تک عمل کرتے ہیں یا صرف باتیں ہی کرتے ہیں ۔ ہر ایک مسلمان نے اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہے اور خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس حد تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔

 Asif Yaseen

Asif Yaseen

تحریر : آصف یٰسین لانگو
03003802786