تحریر : حاجی زاہد حسین خان انبیائے کرام علیہ السلام کی کثیر تعداد بنی اسرائیل سے گزری ہے ان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ آئندہ مبعوث ہونے والا کوئی پیغمبر کسی دوسری قوم سے ہو گا مگر ایک طویل مدت کے بعد جب معجزاتی طور پر حضرت عیسیٰ پیدائشی رسول بنا کر بھیجے گئے تو بنی اسرائیل حتی کہ ان کی اپنی قوم نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تب عیسیٰ ماں کی گود میں بول اٹھے میں اللہ کا رسول اور بندہ ہوں جس طرح حضرت آدم کو ماں باپ کے بغیر پیدا کیا گیا اسی طرح مجھے بن باپ کے پیدا کیا گیا ہے ۔ مگر بنی اسرائیل کے حسد و بغض نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اورمشہور کر دیا کہ ان کا پیغمبر بغیر باپ کے ہے اس کا کوئی باپ نہیں بن باپ کے بیٹا کہنا ایک بہت بڑی گالی تصور کی جاتی ہے۔ اسی لئے عیسیٰ کی قوم نے یہ تاویل گھڑ لی کہ ہمارے رسول کا باپ تو اللہ ہے اس طرح اہل بنی اسرائیل تو مطمئن ہوگئے
مگر سوائے چند حواریوں کے قوم عیسیٰ نے اپنے رسول کے پیغام توحید کو پس پشت ڈال کر نیا عقیدہ بنا لیا ان کی ان نافرمانیوں اوربنی اسرائیلی بغض نے آخر کار حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھا دیا۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو زندہ آسمان پر بلا لیا۔ پھر ایک طویل مدت کے بعد جب اہل قریش سے ہمارے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ ۖ معبوث ہوئے تو اللہ نے یہود ونصاریٰ دونوں اقوام کو آپ ۖ اور ان پر اتاری جانے والی کتاب قرآن قریم پر ایمان لانے اور پیروی کرنے کا حکم دیا مگر دونوں اقوام نے حسد اور بغض کی بنیاد پر انکاری ہو کر مغضوب اور گمراہی کا لقب حاصل کر لیا۔
لیکن قارئین عجب تو یہ ہوا کہ رسول اللہ ۖ کی اپنی قوم قریش مکہ نے ان کی رسالت کا انکار کر دیا۔ تاویل یہ پیش کی کہ ہم میں سے ہمارے جیسا یہ بشربلا کیسے رسول ہو سکتا ہے اس طرح انہوں نے بھی بشری فضیلت کا انکار کر کے اللہ کے حکم توحید اور رسالت کے منکربن کر گروہ کفار اور منافقین کی سند حاصل کر لی۔ مکہ کے چند اہل ایمان اور جانثار رسول کے علاوہ تمام کفار مکہ رسول اللہ کے جانی دشمن بن بیٹھے طرح طرح کی اذیتیں دیکر انہوںنے سابقہ اقوام کو بھی کفروشرک میں پیچھے چھوڑ دیا۔ مگر آقائے دوجہاں ۖ نے ان کی اس اسلام دشمنی اور رسول دشمنی میں بھی اپنی دعوت و تبلیغ جاری رکھی مکہ سے دربدر ہو کر طائف کی طرف رخ کیا۔
ALLAH
مگر طائف والوں نے بھی انہیں مار مار کر لہو لہان کر دیا تب انکی اس مظلومیت پر فرشتے اور آسمان خون کے آنسو روئے جبرائیل حاضر ہوئے عرض کی یا رسول اللہ حکم دیں اہل طائف کو ان بلند بانگ دو پہاڑوں کے درمیان دفن کر دیں۔ نہیں نہیں میں رحمت بن کر آیا ہوں۔ آج یہ نہیں تو کل ان کی اولادیں میرا کلمہ پڑھ لیں گیں اور پھر دعا کے لئے ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔ یا اللہ ان کا کوئی قصور نہیں میری تبلیغ میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ میں تیری بات ان کو صحیح سمجھا نہیں سکا۔ تب اللہ کی رحمت جوش میں آئی اسی وقت دشمن رسول عتبہ کا غلام جو انگور کے خوشے دینے آیا تھا۔ نے کلمہ پڑھ لیا اس طرح رسول اللہ کی عفو درگزر ، اخلاق و اعما ل سے آس پاس کے علاقوں کے لوگ اسلام کے دائرے میں آنے لگے۔ مگر مکے والوں کی ہٹ دھرمی نے انہیں پھر ہجرت پر مجبور کر دیا۔
ان کے دیگر ساتھی صحابہ حبشہ کوکوچ کر گئے اور خود رسول اللہ ۖ ابو بکر صدیق کے ساتھ رات کی تاریکی میں مدینے کی طرف ہجرت کر گئے ۔ مدینہ جس کا پہلے نام یثرب تھا وہاں پہلی مسجد قباء تعمیر ہوئی ۔ تمام قبائل جوق درجوق اسلام لانے لگے۔ قافلے آنے لگے اور اس طرح کاروان بنتا گیا۔ انصار ومہاجرین بھائی بھائی بن گئے ۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی اسلام لے آیا۔ داعیان اسلام صحابہ کی جماعت دعوت و تبلغ کیلئے سفر پر نکلنے لگی۔ ایران کے قیصر وکسریٰ اور روم کو پیغام اسلام بھیجے گئے رسول اللہ کی طرف سے اللہ کے نام سے اللہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ میں اس کا آخری نبی ۖ اور رسول ہوں اہل اسلام سب بھائی بھائی ہیں۔ خبردار دوسرے کی جان مال عزت تم پر حرام ہے۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں کوئی امیر غریب کوئی قریشی غیر قریشی نہیں مگر تقویٰ کی بنیاد پر ۔ غصہ حرام ہے۔ جھوٹ حرام ہے۔ خبردار اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے
پھر ہمارے آقانے عملاً اسلام کے تمام ارکان پر عمل کر دیکھایا۔ اور اس اخلاق اعظم کا مظاہرہ کیا کہ اپنے تو اپنے یہود ونصاریٰ بھی عش عش کر اٹھے۔ اللہ اللہ کفار مکہ کو معاف کر دیا۔ امیر حمزہ کے قاتلوں کو معاف کر دیا۔ ابو سفیان اور عبداللہ بن اُبی کو معاف کر دیا۔اپنا کرتہ اسکے جنازے کو دیا جنازہ پڑھایا ۔ یا اللہ اسے معاف کر دے۔ بیوائوں کو سہارا دیا۔ یتیموں کی پرورش کی عدل و انصاف کا نمونہ قائم کیا۔ عورتوں کو حقوق دلائے۔ مائوں کو عزت دی۔ بیٹوں کو پیار دیا۔ بیویوں کو محبت دی اور بچوں کو شفقت دی۔ قدرت کے دیئے ہوئے مکمل نظام حیات پر خود عمل کیا اور عمل کروایا۔ بشری ذات اور نوری صفات کے ہمارے آقاۖ نے حسن سیرت کی وہ مثال قائم کی کہ تاریخ انسانیت میں اسکی مثال نہیں ملتی۔
Islam
زندگی کی تریسٹھ بہاریں جس میں درد تھا کرب تھا بھوک تھی افلاس تھا اسلام کو تین براعظموں تک پہنچا کر رخصت دنیا کے وقت امت کی بخشش کا سرٹیفکیٹ لے کر اس دنیا سے ہمارے آقا رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ قارئین بارہ ربیع الاول آقا علیہ السلام کی یوم ولادت بھی ہے اور یوم وفات بھی ۔ ہم خوشیاں منائیں یا ماتم کریں کچھ سمجھ نہیں آتا کیا کریں۔ صدیوں سے ہم یہ دن مناتے ہیں۔ جلسے جلوس نکالتے ہیں۔ شیرنیاں حلوے اور جشن چراغاں بھی مگر جو کام ہمارے کرنے کا تھا وہ تو ہم کرتے نہیں۔ سنت پر عمل نہ شریعت پر عمل انکی سیرت کا ہماری زندگیوں میں شائبہ تک نہیں اخلاق نہ اخلاص عبادت نہ ریاضت محبت نہ تابعداری اخوت نہ بھائی چارہ اور دعوے دار ہیں رسول اللہ کی محبت کے یہ کیسا تضاد ہے۔
یہود نے ہمارے آقاء نبی آخرالزماںسے بغض کیا وہ مغضوب ٹھہرائے گئے نصاریٰ نے ان سے حسدکیا انکار کیا اور وہ گمراہ ٹھہرائے گئے کفار مکہ نے عداوت کی اور وہ بھی راندہ درگاہ ٹھہرے مگر امت نے نام پر فرزند اسلام کے نام پر انکی تمام تعلیمات کو پس پشت ڈال کر کیسے ہم عاشق رسول ٹھہرے یہ کیسی عاشقی ہے جس میں عمر فاروق اور ابو بکر صدیق کی زندگی کا شائبہ نہیں۔ عثمان و علی المرتضیٰ کی سی محبت نہ حبشی بلال جیسی عاشقی نماز نہ روزہ زکوٰة نہ جہاد اور حج اخلاق نہ قربانی ۔ بس ربیع الاول کے چند ایام اور محرم کے دس دن جلسے جلوس رونا پیٹنا ۔ جشن چراغاں اور نعتیں قوالیاں جن میں ہمارے علما ء حضرات صوفیاء پیش پیش رہتے ہیں۔ جس میں رسول اللہ ۖ کی زندگی سنت و سیرت عمل و عبادت کا شائبہ تک نہیں۔
Islam
یہ کیسی محبت ہے یہ کیسی عاشقی ہے یہ کیسی اطاعت رسول ہے۔ ایسے میں ہمارا کیا مقام ہو گا۔ کیسا درجہ ہو گا۔ آئو ہم سب بحیثیت امت محمدیہ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے اپنے عمل و اعمال درست کریں۔ ہمارے سامنے سنت رسول بھی ہے اور سیرت صحابہ بھی ہے۔ صلحاء اور صالحین مومنین کی اطاعت گزاری بھی۔ ہم جلسے جلوس ضرور کریں محبت اور عاشقی کا اظہار کریںمگر ہمارے عمل و اعمال میں کہیں بھی انکے دائرے سے تجاوز نہ ہو ورنہ کہیںسابقہ امتوں کی طرح ہم پر بھی اپنے آقا ۖ کی نا فرمانی کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔ الاوان والحفیظ ۔ یا اللہ تو ہمیں صحیح معنوں میں اپنا عبادت گزار اور رسول اللہ ۖ کا اطاعت گزار امتی اور عاشق رسول بنا ۔ آمین ثم آمین
تحریر : حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com