تحریر : شکیل مومند دنیا میں انسان کی ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں جو نادار ہے۔ انکے لئے صبر ہے اور جو مالدا ہے اُنکے لئے شکر ہے۔ انسان کی صرف دو ہی دو حالتیں ہیں۔ کہ وہ اللہ کے یاد میں رہے صبر اور شکر ۔پاکستان میں ایسے علاقے بھی ہے جہاں پائوں میں جوتیاں پہننا عیش وعشرت سمجھا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے مراعات میں اضافے کی تحریک منٹو ں میں منظورکرالی گئی۔ کسی نے اعتراض بھی نہیں کیا۔ اراکین قومی اسمبلی کے علاوہ سپیکر ،ڈپٹی سپیکر، چئیرمین ،ڈپٹی چئیرمین،سینٹ اراکین کے تنخواہوں میں بھی دس گناہ اور باقی مراعات میں دس گنا اضافہ کردیا گیا۔ یادرے رکن پارلیمنٹ کے تنخواہ 72ہزارروپے سے بڑھا کر 2لاکھ روپے اس دور میں ملک کے ہر رکن قومی اسمبلی 3کروڑ 20لاکھ روپے سالانہ میں پڑتا ہے یہ حضرات اس ملک کے پارلیمنٹرین ہے جس کا آج پیدا ہونے والا ہر بچہ سوا لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ فاٹا آج بھی بدترین قسم کے احساس محرومی کا شکار ہے۔
اسکی بنیادی وجہ یہی ہے پہلے روز سے ہی یہ علاقہ تعلیم ،فنی تعلیم، صحت، انصاف ،بنیادی انسانی حقوق اور باعزت اقتصادی مواقع سے محروم چلا آرہا ہے۔ یہاں کے لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہے آج بھی ہزاروں تعلیم یافتہ قبائلی نوجوان بے روزگار ہے ہر دور حکومت میں فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے اقدامات کرنے کی دعوے تو کئے گئے یہاں کے لوگوں کو صحت ،تعلیم،روزگار اور انصاف کی فراہمی کے مواقع دینے ہونگے۔ یہاں کے لوگ انگریزوں کے آمد کے بعد سے ایک ایسے نظام میں جھکڑے ہیںعرف عام میں اُسے FCRکہا جاتا ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں بجلی کا بحران بہت زیادہ ہے۔ اور ایسے علاقے بھی ہے جہاں آج کے جدید دور میں بجلی تک میسر نہیں۔
غریب لوگ وہی پرانے روایات کو قائم کرکے کھلے آسمان تلے سوتے ہیں۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ شمسی توانائی،سولر سسٹم سے عوام اپنے ضروریات پورا کررہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بجلی 15سے 20گھنٹے بند رہنے کے بعد کچھ دیر کیلئے اپنی شکل دکھانے اور ہمارے صورت دیکھنے آجاتی ہے کسی بھی خطے کی ترقی میں توانائی کے دستیاب وسائل سے استفادہ کرنے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پاکستان اور خصوصی قبائلی علاقے توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے تاہم بدقسمتی سے ان وسائل کو بروئے کار لانے میں کسی نے عمل دخل نہیں کیا۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے ایک سال قبل 356پن بجلی گھروں کے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ کم میگاواٹ کے ان منصوبوں سے پیدا بجلی کو نیشنل گریڈ میں شامل کیا جائے گا۔بلکہ ان پن بجلی گھروں سے پیدا بجلی اس علاقے کے عوام کو دی جائے گی۔
Electricity
تاہم صوبائی حکومت کے تین سال مکمل ہوچکے ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق شانگلہ ،مانسہرہ،دیر ،چترال اور ملاکنڈ کے مختلف اضلاع میں PEDOکے 37بجلی گھر مکمل ہوچکے ہیں۔ اُن پر لاگت 5.524ارب روپے لگایا گیا۔ اور 6منصوبوں پر کام جاری ہے جو کچوے کی رفتار پر کام جاری ہے۔ احکام بالا کہتے ہیں کہ فنڈز کی کمی ہے۔ جو نہایتی بہترین منصوبے ہیں۔ قبائلی علاقوں کیلئے ایسے منصوبے نہایت ضروری اور اہم ہے۔ قبائلی علاقوں میں بے شمار ایسی مقامات ہے جہاں اس قسم کے منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں۔قبائلی علاقوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے فراہمی کے منصوبے شروع کیے جائیں۔ FDAکے ادارے نے ٹیسٹنگ بیس پر مومند ایجنسی تحصیل خویزئی کے مقام پر Windmillمنصوبہ شروع ہے جو نہایت قابل تعریف اور کامیاب ہے۔
وفاقی حکومت کو چاہئے کہ بیرونی ملک سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے کیطرف راغب کرنا چاہئے۔ ابھی بھی قبائلی علاقوں میں سرسوں کے دئیے اور لالٹینوں کے روشنیوں میں قبائلی طلباء پڑھائی کرتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کیلئے قبائلی طلباء کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ قبائلی علاقوں میں شمسی ٹیوب ویل لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ جس سے پینے کا پانی اور زاعت کا کام لیا جاتا ہے۔ اور قبائلی علاقوں میں بارانی ڈیم کی لگنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ جس سے پانی کے بحران کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں پاور پالیسی کا نام ونشان ہی نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہئے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں قبائلی علاقوں کیلئے توانائی کے پراجیکٹس ترجیحی بنیادوں پر شروع کردینے چاہئے۔ قبائلی علاقوں میں پن بجلی ذخائر کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے اور با قاعدہ سروے کرایا جائے جہاں ممکن ہو وہاں پر توانائی کے منصوبے شروع کئے جائیں۔ باقاعدہ وفاق کی طرف سے فنڈ ز مختص کیا جائے ۔ ملک میں توانائی کے بحران سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ قبائلی علاقہ جات روشن اور آباد رہے۔ خوشحال فاٹا خوشحال پاکستان۔