تحریر : طارق حسین بٹ آزاد کشمیر کے انتخابات کا ہنگامہ فرو ہوا اور مسلم لیگ (ن) تاریخی فتح سے ہمکنار ہوئی۔مسلم لیگ (ن) کو اندازوں اور توقعات سے کہیں بڑھ کر کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ان انتخابات سے قبل تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے تھی کہ مسلم لیگ(ن) ان انتخابات میں اپنا لوہا منوائے گی اور بیس کے قریب نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ پی پی پی اور پاکستان تحریکِ انصاف دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہیں گی۔ان کی نشستیں پانچ سے زیادہ نہیں ہوں گی۔پاکستان تحریکِ انصاف تو پہلی دفعہ قسمت آزمائی کر رہی تھی لہذا اس سے بڑی توقعات وابستہ کر لینا دانشمندی نہیں تھی۔عمران خان کی اپنی انتخابی مہم بھی پھیکی پھیکی نظر آ رہی تھی جس سے کوئی بڑا معرکہ سر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے تو یہ جماعت پچھلے پانچ سالوں سے آزاد کشمیر کی حکمران جماعت تھی لہذا اس سے تو قعات بھی بہت زیادہ تھیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بلاول بھٹو زرداری پہلی بار آزاد کشمیر کے انتخابی معرکے میں پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ اتارے گئے تھے۔
لہذا ان کے سحر سے بھی پی پی پی خوش فہمیوں میں مبتلا تھی اور شائد یہی وجہ تھی کہ پی پی پی ان انتخابات میں اپنی حکومت دوبارہ بنانے کیلئے پر امید تھی ۔بلاول بھٹو زرداری کے نعرے میں عجیب و غیریب تھے ۔وہ مسائل کی بجائے مودی کا جو یار ہے غدار ہے کی رٹ لگائے ہوئے تھے۔انھیں امید تھی کہ ان کے اس نعرے کو کشمیر کی سلگتی ہوئی صورتِ حال میں کافی پذیرائی ملے گی لیکن ووٹروں نے اس نعرے کو بالکل درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جس کی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری اپنی دھاک بٹھانے میں ناکام ہو گئے۔اگر میں یہ کہوں کہ وہ ان انتخابات میں چارو ں شانے چت ہو گئے ہیں تو بالکل بے جا نہ ہو گا۔انھیں فتح کی بجائے شکست کی ہزیمت اٹھا نی پڑی ہے جو کہ پی پی پی کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے ۔ سیاست دان ہمیشہ رجائیت پسند ہوتے ہیں اور شکست میں بھی اپنی فتح کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔یہ ان کا حق ہے اور نھیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عوام اپنے حقیقی اور دو ٹوک رائے سے اس طرح کے خوابوں کو چکنا چور کرتے رہتے ہیں اور اپنے ووٹ کی طاقت سے خوابوں میں زندہ رہنے والے سیاست دانوں کو دن میں تارے دکھاتے رہتے ہیں۔بیر سٹر سلطان محمود چوہدری،چوہدری قمرالزمان، چوہدری اشرف پرویز اور مطلوب انقلابی جیسے کئی نامی گرامی امیدوار خاک چاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ عوامی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے ۔بیرسٹر سلطان محمود عالمی شہرت کی حامل شخصیت ہیں لہذا ان کی ہار سب کے لئے لمحہ فکریہ بنی ہوئی ہے ۔وہ تو خود کو آزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم کا مضبوط امیدوار تصور کر رہے تھے اور ایسا ہونا بھی چائیے تھا کیونکہ ان کی شہرت ایک مدبر سیاست دان کی ہے لیکن ووٹرز کا برا ہو کہ انھوں نے ان کے وزارتِ عظمی کے خوابوں کو چکنا چور کر کے رکھ دیاہے ۔آزاد کشمیر کے سر سید( چوہدری قمر زمان) ایک نو وارد امیدوار مشتاق منہاس سے ہار گئے ہیں جو کہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
Politics
مشتاق منہاس آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک نیا اضافہ ہیں۔ان کی جیت سے صحافیوں کو حوصلہ ملے گا اور کئی سکہ بند صحافی کارزارِ سیاست میں قدم رکھنے کا جرات مندانہ فیصلہ کریں گئے ۔صحافی سیاست کی باریکیوں سے واقف ہوتے ہیں، سیاست کی نزاکتوں سے آگاہ ہوتے ہیں،عوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں اور قومی دولت کو لوٹنے والوں کے حربوں کو بخوبی سمجھتے ہیں لہذا ان کا سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کرنا ایک نئے پاکستان کی شروعات ہو سکتی ہیں۔صحافیوں کو سیاست میں ضرور حصہ لینا چائیے کیونکہ ان کی آمد نئے پاکستان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ٹیلیو یژن پر سارا دن شفافیت کا رونا رونے والے اینکرز جب خود اقتدار کی راہداریوں میں موجود ہوں گئے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ نظام میں تبدیلی پر زور بھی دیں گئے اور اپنا اثرو رسوخ بھی استعمال کریں گئے۔
مجھے ذاتی طور پر بہت سے آزاد کشمیر کے راہنمائوں سے ملنے کاموقعہ ملتا رہتا تھا ۔ میں ان کے خیالات ،نظریات اور سوچ کو بخوبی جانتا ہوں ۔ان میں سے بہت سے ذاتی طور پر ایماندار ،دیانت دار اور خدمتِ خلق کے جذبوں کے امین تھے اور وہ عوامی خدمت میں اپنی سیاسی بقا دیکھتے تھے لیکن پی پی پی کی خراب شہرت او ر نا قص طرزِ حکومت کی وجہ سے انھیں بھی انتخابی شکست کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔مجھے اس وقت ٢٠٠٨ کے انتخابات یاد آ رہے ہیں جس میں مسلم لیگ(ق) کا اسی طرح کا حشر ہوا تھا۔بہت سے امید واروں نے پارٹی ٹکٹ لینے سے انکار کر دیا تھا اور وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہو گئے تھے جبکہ اس کے بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے۔مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں تواس جماعت کا بالکل صفایا ہو گیا تھا جس میں چوہدری شجاعت جیسے پارلیمینٹیرین بھی اپنے آبائی حلقوں سے اپنی نشستیں گنوا بیٹھے تھے۔
مسلم لیگ (ق) کا مستقبل سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری،عمران خان یا پھر پی پی پی کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں ۔چوہدری پرویز الہی اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن آ ئیندہ کیاہوگا کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔حیرا ن کن بات یہ ہے کہ وہ میاں برادران پر جس طرح الزامات لگاتے ہیں اور انھیں جس طرح چیلنج کرتے ہیں اس سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے کہ آئیندہ کے انتخابات مسلم لیگ (ق) ہی جیتے گیاور وزارتِ عظمی کی پگ چوہدری پرویز الہی کے سر پر باندھی جائے گیحالانکہ قرائن بتاتے ہیں کہ آئیندہ انتخابات تک مسلم لیگ (ن) قصہ پریہنہ بن جائے گی ۔خوش فہمیوں میں زندہ رہنے کا کوئی مول نہیں ہوتا شائد اسی لئے لوگ خوش فہمیوں میں زندہ رہتے ہیں ۔ چوہدری برادران اور شیخ رشید احمد جیسے سیاست دانوں کی ساری سیاست اب چھڑی والوں کے جادو کی منتظر ہے ۔اگر چھڑی گھوم گئی تو ان کے وارے نیارے ہو جائیں گئے وگرنہ بصورت دیگر وہ سیاسی بیانات سے ہی خود کو خوش کرتے رہیں گئے۔
Pakistan
پاکستان میں شب خونوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے اور ایک خاص مدت کے بعد شب خون کا جن بوتل سے نکل کر سارے سیاسی نظام کو ہڑپ کر جاتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ چھڑی والوں کے پروردہ سیاست دان شب خون کی امیدیں سجائے رہتے ہیں۔ایسے سیاست دانوں کی زبانیں چھڑی والوں کو بلاتے بلاتے سوکھ گئی ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے بلاوے سے باز نہیں آ رہے کیونکہ اقتدار میں آنے کا یہی ان کا آخری راستہ ہے ۔وہ ٹیویژن پر دن رات ایک ہی راگ الاپتے جا رہے ہیں کہ پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے لہذا پاکستان کو بچانے کیلئے غیبی ہاتھوں کو حرکت میں آ جانا چائیے۔کیا وہ اس وقت حرکت میں آئیں گئے جب سب کچھ لٹ جائیگا؟یاد رکھیں وہ جتنی دیر کریں گئے پاکستان اتنا ہی مشکلات میں گرتا چلا جائیگا لہذا ان کا مناسب وقت پر اپنا فرض نبھانا ضروری ہے کیونکہ یہی پاکستان کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہے۔
پاناما لیکس میں جس خدشے کا سب سے زیادہ اظہار کیا گیا تھا وہ یہی خدشہ تھا کہ پاناما لیکس کے بعد کرپٹ حکمرانوں کو حکومت کرنے کا کو ئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہا لہذا وہ استعفی دے کر اقتدار سے بے دخل ہو جائیں۔اب میاں محمد نواز شریف اتنے بھولے تو ہیں نہیں کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے پر فورا مستعفی ہو جائیں جبکہ وہ ہر انتخاب بھی جیتتے جا رہے ہیں ۔وہ لاکھ برے سہی لیکن ووٹرز انھیں اس نظر سے نہیں دیکھ رہے وہ اب بھی ان پر اعتماد کر رہے ہیں ۔گلگت بلتستان کے انتخابات ہوں یا پنجاب کے ضمنی انتخابات ہوں ہر جگہ مسلم لیگ (ن) اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی جا رہی ہے۔حد تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں پشاور میں جو ضمنی انتخاب ہو اتھا اس کی فاتح بھی مسلم لیگ (ن) ہی قرار پائی تھی۔
میاں محمد نواز شریف کو بیلٹ میں تو شکست نہیں دی جا سکتی لہذا بلٹ کا راستہ تو کھلا ہوا ہے اور بلٹ کا راستہ شب خون کو دعوت دئے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہو سکتا۔میاں محمد نواز شریف کے استعفی کا مطالبہ اسی تناظر میں ہے کہ چھڑی والے آگے بڑھیں اور اس کارِ خیر کو سر انجام دیں کہ ان کے اقتدار میں آنے کی راہیں آسان ہو جائیں کیونکہ ویسے تو اقتدار انھیں اگلے کئی جنموں میں بھی مل سکنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔،۔