تحریر : چوہدری غلام غوث انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی میں خوشحالی کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون کی بھی تمنا رکھتا ہے اور اپنے شب و روز گذارنے کے لیے ان دو لوازمات کو ضروری سمجھتا ہے خوشحالی اور سکون دو مختلف چیزیں ہیں لیکن یہ دونوں انسان کے لیے اشد ضروری ہیں اللہ کے رسول ۖ نے جہاں لوگوں کو سکون اور اطمینان کا طریقہ سکھایا ہے وہاں آپ ۖ اپنے لوگوں کے لیے خوشحالی کی دعا بھی فرمایا کرتے تھے۔ آپ ۖ فرماتے تھے کہ غربت انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ آپ ذرا باریک بینی سے غور کر لیجیے انسان کو دولت اور سکون دونوں درکار ہوتے ہیں اور یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی دشمن ہوتی ہیں۔
دولت جب کسی شخص کے دروازے پر دستک دیتی ہے تو سکون اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیتا ہے اور جہاں سکون ڈیرے ڈال لے وہاں سے دولت کھسکنے لگتی ہے لیکن اللہ کا شکر وہ لازوال طاقت اور مرکز مائل قوت ہے جو سکون اور دولت دونوں کو یکجا رکھ سکتی ہے ۔ شکر پر استقامت ان دونوں کو سینکڑوں ہزاروں سالوں تک بھی اکٹھا رکھ سکتی ہے ۔ آپ دنیا میں ان تمام خوشحال دولت مند اور ترقی یافتہ لوگوں کو دلی بے سکونی کا مظہر پائیں گے جو ناشکرے ہوں گے ۔ شکر اللہ کی عملی اطاعت کا نام ہے خلوت میں جب آپ کا دھیان ملنے والی نعمت کی طرف مبذول ہوتے ہی آنکھوں سے آنسو نکل آئیں ہاتھ آسمانوں کی طرف بلند ہو جائیں جبیںسجدہ شکر کے لیے جھک جائے تو سمجھیں شکر ادا ہو گیا ۔مگر آج کل ہم لوگوں کو شکر بجا لاتے ہوئے دیکھتے ہیں صرف زبانی کلامی۔ طرز تکلم میں شکرکے الفاظ ایسے شامل کرتے ہیں ہم پر اللہ کا بڑا کرم ہے اللہ کا شکر ہے اور ان فقروں کو ہم نے اس طرح روٹین بنا لیا ہے جیسے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہیلو ہائے اور سوری کے فقرات کہتے ہیں۔
ہم لوگ شکر میں بھی منافقت کرنے سے باز نہیں آتے۔ قارئین کرام اصل شکر کیا ہے ؟ ہمیں سب سے پہلے اللہ جلہ شانہ کے انعامات کوتہہ دل سے تسلیم کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صحت دی دنیا کا ہر انسان ساڑھے چار ہزار بیماریاں لے کر پیدا ہوتا ہے اور جسم کے اندر ان میں کوئی بھی بیماری کسی بھی وقت متحرک ہو سکتی ہے لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں ان بیماریوں سے بچا کر کرکھا ہے دنیا میں کھانا اتنامشکل نہیں ہوتا جتنا اس کھانے کو خارج کرنا مشکل ہے تصور کریں اگر فراغت نہ ہو تو آپ کی تکلیف کس سطح کی ہوگی۔ پیشاب رک جائے تو کیا قیامت آئے گی ہم ان تکالیف کا اندازہ کرنے سے قاصر ہیں اگر انسان کے منہ میں تھوک پیدا نہ ہو تودنیا کی ساری دولت مل کر بھی یہ تھوک پیدا نہیں کر سکتی۔ ہماری سانس کی نالی میں رائی کے دانے برابر رکاوٹ آ جائے ہمارے گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنس جائے ہمارے جسم کا عام پھوڑا کینسر کا روپ دھار لے ہماری ریڑھ کی ہڈی کی پلیٹس اپنی جگہ سے ہل جائیں تو ہماری ساری زندگی عذاب بن جائے گی اور انسان موت کو زندگی پر ترجیح دینا شروع کر دے گا دنیا میں اس شخص سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں ہو سکتا جس کی جیب میں ہزار روپے ہو ں اور اس شخص کے پاس ہزار روپیہ خرچ کرنے کی مہلت اور اختیار موجود ہو۔ دنیا کی تاریخ میں ہزاروں ایسے لوگ گذرے ہیں جن کے پاس کروڑوں اربوں روپے تھے مگر قدرت نے اِنہیں یہ رقم خرچ کرنے کی مہلت نہیں دی۔ تاریخ کے تازہ اوراق میں شاہِ ایران رضا شاہ پہلوی کی مثال سامنے کھڑی ہے کہ جس کے اکائونٹ میں اربوں روپے تھے لیکن قدرت نے اسے یہ رقم خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام دوسروں کے ٹکڑوں پر گذارے ، عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے مرد آہن معمر قذافی کی مثالیں ابھی کل کی بات ہے اربوں کھربوں روپے کے علاوہ سونا چاندی ہیرے و جواہرات سب اکارت گئے قدرت نے چند لمحات بھی عطا نہیں کیے کہ وہ ان اربوں کھربوں کو ٹھکانے لگانے کا سوچ بھی سکیں۔
قارئین یاد رکھیں دولت ایک ہزار کے نوٹ کی شکل میں ہو یا اربوں کھربوں کے چیک کی صورت میں یہ اللہ کا بڑا کرم ہوتا ہے کہ اس کا مالک اسے خود پر خرچ کر سکے اللہ کا اس سے بڑا کرم کیا ہو سکتا ہے ۔اللہ آپ کو اولاد جیسی عظیم نعمت سے نوازے اور پھر اس سے بڑی نوازش کہ وہ اولاد ذہین و فطین اور فرمانبردار بھی ہو ۔ آپ کو تندرستی جیسی ہزار نعمت میسر ہو آپ آزادانہ گھوم پھر سکیں آپ اپنی مرضی سے کھا پی سکیں، آپ اپنے ہر اعضاء کو اپنی منشا سے اِدھر اُدھر حرکت دے سکیں اور یہ کتنی عظیم نعمتیں ہیں۔ آپ اُن لوگوں سے پوچھیں جو بے اولاد ہیں جن کی اولاد کند ذہن اور نافرمان ہے ۔ جو ٹانگ اور ہاتھ سے معذور ہیں جو آنکھوں کی بینائی نہ ہونے سے قدرت کی رنگینیون اور رعنائیوں کو دیکھ نہیں سکتے اور تواور دنیا میں ایک تولہ تھوک کی قیمت کیا ہے یہ آپ کو صرف وہی بتا سکتا ہے جس کا منہ ہر وقت خشک رہتا ہے اور اسے زبان کو حرکت دینے کے لیے ہر پانچ منٹ بعد کیمیکل کا گھونٹ پینا پڑتا ہے اس تنا ظر میں دیکھیں تو ہمار ا تشکر کرنے کا لیول انتہائی پستی کا شکار ہے ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے صدق دل سے اللہ کی نعمتوں کو تسلیم کریں اور بعد ازاں انتہائی خلوص نیت سے پور ی دنیا کو بتادیں کہ اللہ کا ہم پر کتنا کرم و فضل ہے اور ہم اللہ کے تہہ دل سے عملی طور پر مشکور ہیں۔
مجھے دنیا کے نامور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈے کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے فرائیڈے کے پاس شہر کا امیر ترین آدمی آیا اور کہنے لگا فرائیڈے میرے پاس دنیا کی تمام نعمتیں مو جود ہیں لیکن میرے دل کو قرار نہیں سکون نہیں اور خوشی کا عملی احساس نہیں تم میرا علاج کرو فرائیڈمسکرایا اور اسے مشورہ تجویز کیا کہ آپ روزانہ سو مارک کے پھول خریدا کریں اور یہ پھول بچوں بوڑھوں میں تقسیم کر دیا کریں آپ کو خوشی بھی مل جائے گی اور سکون بھی وہ شخص گیا اُس نے پھول تقسیم کرنے شروع کردیے او ر جب وہ ایک ماہ بعد فرائیڈکے پاس دوبارہ آیا تو اس کے چہرے پر خوشی تھی، سکون تھا اور دل میں طمانیت، فرائیڈ نے اسے اس وقت بتایا خوشی ہمیشہ چھوٹی چھوٹی بے لوث خدمتوں میں ملتی ہے لیکن لوگ اسے زندگی بھر بڑے بڑے کاموں اور بڑی نیکیوں میں تلاش کرے رہتے ہیں لہذا لوگ عمر بھر اس سے محروم رہتے ہیں میرے کریم آقا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ۖ نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھاکہ کسی بھی نیکی کو چھوٹی یا حقیر سمجھ کر کبھی نظر انداز نہ کرو اس کی اللہ کے ہاں بڑی قدر و منزلت ہے اور سائنسی نفسیات کا علم چودہ سو سال کی ترقی کا سفر طے کرکے آج یہاں پہنچا ہے۔
دنیا میں ان لوگوں سے بڑا بدقسمت کوئی نہیں ہوتا جنہیں اللہ تعالیٰ ترقی خوشحالی رزق ، صحت، عزت و عظمت سے نوازے اور وہ ہر وقت شکوہ کرتے رہیں وہ ہروقت روتے پھریں جب بھی اُن سے پوچھا جائے آپ کیسے ہیں تو سننے کو ملے ہائے مر گئے، برباد ہوگئے ، لٹ گئے ، پیسے ختم ہوگئے ،بجلی چلی گئی ، گیس نہیں آرہی ، پانی نہیں مل رہا، ملک کی حالت پتلی ہے ، کاروبار میں مندا ہے ،تنخواہ میں پوری نہیں پڑتی، پرموشن نہیں ہو رہی ، ہمیں پچھلی حکومت نے تو برباد کرہی دیا تھا موجودہ نے تو زندہ درگور کر دیا ہے ہمیں بھارت ڈکا ر گیا ہے ، ہماری معیشت پر چین قابض ہونے کو ہے ، امریکہ ہمیں لے ڈوباقرضے میں انگ انگ ڈوب گیا، تجارت غرق ہو گئی، کرنسی کی ویلیو نہ رہی نقصان ہی نقصان گھاٹے ہی گھاٹے وغیرہ وغیرہ ۔ دوستو یقین کریں انسان سات بار اللہ کی دی ہوئی نعمت کا انکار کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اِس نعمت کا ذائقہ اُڑا دیتا ہے۔
انسان وہ نعمت کھاتا ضرور ہے مگر مزہ نہیں آتا انسان کے پاس رزق اور دولت تو ہوتی ہے لیکن اس رزق اور دولت میںعملی لذت نہیں ہوتی ، انسان ترقی یافتہ تو ہو جاتا ہے مگر ترقی میں رنگ ڈھنگ باقی نہیں رہتایہ صرف اللہ کا شکر وہ واحد عنصر ہے جو اللہ کی نعمتوں میں رنگ، ڈھنگ، لذت اور مزہ ڈالتا ہے ، شریعت محمدی ۖ نے بھی شکر کے تین مستند طریقے بتائے ہیں1.۔شکر باالقلب2۔ شکربااللسان3۔شکر بالاظہار۔ جب بھی نوازشات کی بارشیں ہوں دوسروں کو بتائو اللہ کا بہت کرم ہے ہمیشہ زبان پر شکر کے کلمات لائو اللہ کی نعمتوں کی فراوانی کا تذکرہ پُر نم آنکھوں اور گلوگیر آواز سے کرواور کبھی بھی اللہ کی نعمتوں کی موجودگی میں شکوہ نہ کرو کیونکہ اللہ شکر کرنے والوں سے محبت اور شکوہ کرنے والوں سے ناراض رہتا ہے ۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ،جس شخص کو ایک دن کا کھانا ، صحت اور امان میسر ہو وہ خوش قسمت ترین انسان ہے۔