یہ بھی پاکستانی خدا را انہیں گیس تو دیں بھلا ہوگا

Load Shedding

Load Shedding

تحریر: بدر سرحدی
انقلاب کے لئے عوام کو سڑکوںپر نکلنا ہوگا ، ایک پرائیویٹ چینل پر شیخ رشید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ،اینکتر پرسن نے لقمہ دیا خدا نہ کرے کوئی حادثہ پیش آئے لوڈ شیڈنگ کے باوجود نومبر ١٥ہ٢،کا ١٣٥ یونٹ کا بل ٨٦٣،روپئے مگر جو جمع کرایا وہ،٢٦٣ا تھایہی نہیں اوور بلنگ کے علاوہ ہر بل میں ہزار پانچ سو حکومتی جگا ٹکسزز… . اور پھر یہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب ،اور نہیں تو کام کا بہانہ بنا کر کئی کئی گھنٹے بتی بند رہتی اور بل ….. بجلی چوری جسے لائین لاسزز بھی کہتے وہ بھی صرف غریب عوام ہی کو ادا کرنا پڑتا میں پورے وثوق سے کہاجا سکتا ہے کہ عوام میں سے عوام کا ہمدرد نہیں آئے گا جو خوشحالی لائے ویسے تو بیانات کی حد تک عوام سپارٹا کے خیالی جزیرے میں رہتے ہر طرف …….. اب یہ سوئی گیس دیکھیں عوام کو بڑے بڑے

قیمتی اشتہارات کے زریعہ سوئی گیس انظامیہ مشورہ دیتی ہے گیس بچائیں کیش بجائیں،گرم کپڑوں سے کام لیا جائے مطلب گھر میں ہیٹر نہ جلائیں جبکہ گیس تو چوہلے کے لئے بھی نہیں ہیٹر کے لئے یا بچانے کا کیا سوال … ،مگر ایک کروڑ کی گاڑی رکھنے والوں کے لئے کوئی مشورہ نہیں کہ عیاشی کے لئے گیس نہ پھونکیں پٹرول استعمال کریں مگریہ حقیقی عوام ہیں باقی ہم سب غلام کیڑے مکوڑے….. ایک زمانہ وہ بھی گزرا کشمیر میں سردی سے بچنے کے لئے عوام ایک چھوٹی مٹی کی بنی ہنڈیا نما جسے کانگڑی کہتے ،اس میں چند لکڑی کے جلے ہوئے کوئیلے ڈال کر اسی طرح کی ٹوکری می رکھ کر بکل میں لیکر چلتے پھرتے،اسی طرح کا میرے پاس ایک چار پانچ انچ پلیٹ کا ہیٹر ، اس کے لئے بھی گیس نہیں ، البتہ چو ہلے میں گیس ضرور آتی مگر چپاتی نہیں پکتی ۔ کہ پورے ملک میں ٩٠، فیصد ٹرانپورٹ گیس پر،اور اس کا فائدہ تو ٹرانپورٹر کو خوب عوام کو لوٹ رہے ہیں یا پھر حقیقی عوام کو پہنچانا ہے ،کیا کبھی یہ احتجاج کے لئے نکلے نہیں کہ انہیں گیس پوری ملتی ہے … اور باقی تو کیڑے مکوڑے ….. یہ سوئی گیس ملک میں اللہ تعالےٰ کی پاکستانی عوام کے لئے نعمت تھی جِسے ظالموں نے زحمت بنا دیا ، ، قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرواتے ہیںجیسے کہ تیل کی طرح در آمد کی جارہی ….. پرائیویٹ چینل پر ایک مبصرنے پٹرولیم مصنوعات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا پٹرول ٣٢ ،روپئے لیٹر خرید کر عوام کی لوٹ رہے ہیںاب عالمی منڈی میںتیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود یہا ں اوگرا از خود اضافہ کی سمری بھیجتاہے ، اور اب کریڈٹ وزیر خزانہ لیتا ہے کہ کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا ،مگر یاد رہے سیلز ٹیکس کا عفریت موجود ہی جس کے ذریعہ ……اور پرنالہ وہیں

Gas

Gas

یہ کیونکر ہوسکتا کہ کابینہ کے فیصلے کے بغیر، اوگرااز خود گیس کی قیمت میں ،٣٨ فیصد اضافہ کا اعلان کرے…؟ اپوزیشن نے اضافہ کو مسترد کیا مگر یہ اپوزیشن کون..؟َ سمجھ سے باہر کہ نعمت خداوندی پر بھی مافیہ کا قبضہ کیوں؟ اب باری آگئی وزیر آعظم کی کہ وہ گیس قیمتوں میں اضافہ کو مسترد کرنے کا کریڈٹ لے کر عوام کیڑے مکوڑوں پر احسان کردے ،گیس کی پیداوار ملک میں ہے بار بار اضافہ کا کوئی جواز نہیں …..!عوام سڑکوں پر آئیں مگر عوام کون ؟ عوام سے کیا مراد ہے وہ کس انقلاب کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، اس کی سمجھ نہیں آئی …پاکستان میں کبھی وہ انقلاب نہیں آسکتا کیوں نہیں…کہ یہاں ایک قوم نہیںمگر چرچا بہت یہ ملی جلی بھیڑ ہے جو کبھی کسی نقطہ پر متفق نہیں ہو سکتی،اگر ایسا ہوسکتا تو یہ کالا باغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا جس کی فزیبلٹی پر اُس وقت قوم کا ٢٥ ،ارب خرچ ہوأ۔ انقلاب جس کاتاریخ میںزکر ہے جب تاج اچھالے گئے شائید لوگ انقلاب فرانس کی طرز کا انقلاب دیکھنا چاہتے مگر یاد رہے انقلاب کسی لیڈر کا محتاج نہیں، تاریخی انقلاب کی لیڈر ایک غریب نادار بڑھیا تھی جو سوٹی کے سہارے چل رہی تھی….، بعین ایسے انقلاب کا ایک موقع ٢٠٠٩میں آیا تھا

،جب بنیادی ضروریات ِزندگی کی قلت پیدا کر دی گئی….. بھکر کے سستے رمضان بازارمیں صبح ہی سے آٹے کے حصول کے لئے ایک لمبی لائین(یہ صرف تجربہ کا علم ہے ڈی سی او بھکر کو لائین میں کھڑے ہونے کا ْ… تجربہ نہیں …. )تھی، جب ڈی سی او بھکر تشریف لائے دیکھا ایک شخص لائین میں ٹیڑا کھڑا ہے گویاوہ لائیں سے باہر ہے یہ صر ف وہی لوگ جانتے ہیں جو دودو اور تین تین گھنٹوں تک لائین میں کھڑے ہوتے یہ شخص جس کا نام محمد افضل کئی گھنٹوں سے کھڑا ہوگا ،اُسے لائین میں ٹیڑھا دیکھ کر شاہی اشارہ ہوأ تو شاہی پیادوں نے لائین میں کھڑے ٹیڑھے شخص کو باہر کھینچ لیا یہی وہ وقت تھا جب خونی انقلاب برپا ہو سکتا تھا جب پسی ہوئی غربت ہوش اور جوش میں آئی ،محمد افضل نے ڈی سی او بھکر کو گریبان سے پکڑاتاریخ میں ایسا وہ منظر تھا جب بڑھیا نے اپنی ڈنگوری سے اشارہ کر کے پوچھا چھکڑے میں کیا ہے ،بتایا گیا شاہی کتوں کے لئے گوشت …بڑھیا نے کہا ہمیں روٹی نہیں ملتی اور کتوں کے لئے گوشت….بس کیا تھا پورا فرانس اُمڈ آیا خون کی ندیاں بہہ گئیںظالمو ں کو کہیں پناہ نہ ملی اور تاج اچھالے گئے …!!

Royal protocol

Royal protocol

مگر یہاں جب افضل نے ڈی سی او کا گریباں پکڑا ٍیہاں ایک افضل ہی نہیں سینکڑوں افضل ہونگے جو یہ منظر دیکھ کر سہم گئے ہونگے،کراچی میں شاہانہ پروٹوکول غریب کی بچی کھا گیا، …پی پی پی کا چمچہ کہتا ہے ہمیں بلاول زیادہ عزیز،یعنی غریب کی….!!!، جناب عمران نے یہ سچ کہنے میں دیر نہیںکی، کہ جنہیں موت کا ڈر ہے وہ گھر میں بیٹھیں ،بار بار لکھا ہے ایسا انقلاب بر صغیر کے ممالک میں کبھی نہیں آسکتا ….ایسے کسی انقلاب کیلئے شرط ہے زبان ایک ،رنگ نسل ایک خطہ ایک رسم و رواج ایک پہناوہ ایک اور اگر عقیدہ ایک مسلک ایک سونے پر سہاگہ ہے ،یہاں تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ تو اک ملی جلی بھیڑ ہے،اِس بھیڑ کو سبز باغوں کی چوسنی پر ہی گزر کرنا ہو گا

دوسرا خاتون اینکر نے کہا خدا نہ کرے کوئی حادثہ پیش آجائے ،حادثہ سے مراد کسی فوجی مار شل لاء کی تھی ،لیکن یاد رہے کیڑے مکوڑوں کو اگر ریلیف ملا ہے تو صرف مارشل لاء میں ، سوائے ضیائی دور کہ وہ امیر المومنین بننے کے خواب دیکھتا ہوأ فضا میں تحلیل ہو گیا دو گز زمیں بھی نہ ملی، مگر ملک نصف صدی پیچھے چلا گیا ،ہر کوئی ہر روز عوام کی گردان کرتا ہے، یہ ہر گز عوام نہیںیہ تو حشرات العرض دو پائے کیڑے مکوڑے انہیں عوام کہہ کر حقیقی عوام کی توہین کی جاتی ،جنہیں کبھی سڑکوں پر نہیں دیکھا کہ اُن کی ڈیمانڈ یا ضرورت بلا کسی پس و پیش اُن کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہے….. ،اور یہ کیڑے مکوڑے جوتے اور پیاز کھاتے قبروں میں اترتے رہیں گے ،کبھی سڑکوں پر نہیں نکل سکتے

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی