اک لاوا جو برسوں سے تیار ہو رہا تھا آج پک کر تیار ہو چکا ہے مذہبی انتہا پسندی تو بڑی منصوبہ بندی سے کی جاتی ہے جبکہ آجکل بسوں، ویگنوں اور عام مارکیٹوں میں ایک ایک روپے پر انسانوں کو جانور بنتے ہوئے ایک منٹ بھی نہیں لگتا معمولی جھگڑوں پر بیٹوں نے اپنے والدین کو بے دردی سے مارنا، بھائی کا بھائی سے جائیداد پر تنازعہ اور پھر قتل وغارت ایک معمولی واقعہ بن چکا ہے اب ہم میں سے کسی کے اندر بھی برداشت کا مادہ نہیں ہے معمولی سی بات پر انتقام لینا اب معمول بن چکا ہے ملک میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو اس میں ہم فوری طور پر بیرونی ہاتھ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اسی طرح راولپنڈی میں ہونے والے شیعہ سنی فسادات کے بعد حکومتی بیانات سامنے آنا شروع ہوئے اور علماء کے بھی ہر طبقہ نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ہے۔
اگر اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ہے تو پھر ہمارے اندرونی ہاتھ اتنے مشتعل کیوں ہیں حالانکہ ہر مکتبہ فکر کے علماء کرام اور ہر سیاسی جماعت کے سرکردہ رہنمائوں نے اپنے اپنے ماننے والوں سے امن کی اپیل کی ہے مگر اسکے باوجود ہر طرف ایک خوف اور بدلے کی فضاء ہے خاص کر انتقام کا جوش جوانسان کے اندر ہی اندر لاوے کی طرح پکتا رہتا ہے اور پھر موقعہ ملتے ہی کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو تباہ و برباد کر دیتا ہے بلکہ اسی طرح یہ مذہبی انتہا پسندی کا لاوا اب پک کر ہر مکتبہ فکر کے لوگوں میں آتش فشاں بن چکا ہے۔
Taliban
وہ بے شک طالبان کی شکل میں ہو، شعیہ سنی فرقہ کی شکل میں ہو یا ملک میں سیاسی انتقام کی شکل میں ہواب ان واقعات میں اضافہ ہوتا جائیگا کیونکہ جب ملک میں انصاف بکتا ہوں، نوکریاں بکتی ہوں، پر کشش سیٹیں بکتی ہوں، جیلیں بکتی ہوں، تھانے بکتے ہوں، الیکشن بکتے ہوں، وزیر اعظم بکتے ہوں۔
ملک کا سارا نظام بکتا ہو اور حکمران قومی دولت لوٹ لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثے بنانے میں مصروف ہوں جہاں پر انکی اولادیں اس دولت کو اجاڑنے میں مصروف ہوں اور ہر آنے والا حکمران جانے والوں کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالے تو پھر وہاں پر ایسے واقعات معمول بن جاتے ہیں ملک میں ایک حادثے کے بعد دوسرا حادثہ منہ اٹھائے کھڑا ہوتا ہے ہر قومی ادارہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہر شہر مقتل گاہ بن چکا ہے اور تو اور اب دیہاتوں کی گلیاں اور شہروں کے محلے ڈاکوئوں اور چوروں کی پہنچ سے دور نہیں ہیں ہر محکمہ میں دیہاڑی لگانے والے بیٹھے ہیں شریف آدمی آج بھی تھانے جانے سے اتنا ہی ڈرتا ہے جتنا آج سے پہلے ڈرتا تھا مگر ہمارے حکمران کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں انہیں صرف اپنی سیکیورٹی اور پروٹوکول عزیز ہے جن کے ووٹوں کی بدولت وہ آج ایوان اقتدار میں ہیں آج انہی کو ان سے ملنا مشکل ہو چکا ہے۔
اب رہ سہی کسر موجودہ حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے متعلق کیس عدالت کو بھیج پوری کردی ہے اگر تو پچھلے تمام کیسوں کی طرح عوام کی توجہ کسی اور طرف سے ہٹانے کے لیے یہ بھی ایک چال ہے تو پھر عوام کو ایک اور ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائیں اور اس بار قوم کو معافی دیدیں ہاں اگر آپ واقعی کسی دبائو میں آئے بغیر پرویز مشرف کے خلاف کوئی کاروائی کرنا چاہتے ہیں۔
آئین سے غداری کی سزا دلوانا چاہتے ہیں تو پھر پوری قوم آپ کے ساتھ ہیں آئیں ابتدا کریں قیام پاکستان سے لیکر آج تک جس جس نے آئین توڑا اور غداری کا مرتکب ہوا انکے خلاف مقدمات چلائیں سالوں میں نہیں مہینوں میں بھی نہیں بلکہ دنوں میں فیصلے کریں اس کے لیے بے شک قانون سازی کرکے ایک الگ سے عدالت بنا دیں جہاں پر صرف آئین توڑنے والوں اور ملکی دولت لوٹنے والوں پر ہی مقدمات چلیں جن پر جب جرم ثابت ہو جائے تو پھر انہیں سرعام لٹکاتے جائیں اسکے بعد دیکھیں ملک میں امن کیسے قائم نہیں ہوتا ہے کیونکہ لوٹی ہوئی قومی دولت واپس آنے اور لٹیروں کے انجام کو دیکھ کر کسی اور کولوٹنے کی جرات نہیں ہوگی۔
آئین کو اپنی لونڈی بنانے کا خیال بھی کسی کے دل میں نہیں آئے گا اسکے بعد پھر دیکھنا کہ خوشحالی ملک کے ہر گھرکے دروازے پر ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی اور اسکے بعد نہ کہیں دہشت گردی کا نام ونشان ہوگا نہ کہیں بات بات پر انسان جانور بنے گا بلکہ برداشت اور حوصلہ پیدا ہوگا مگر اسکے لیے ضروری ہے کہ قیادت نڈر، بے خوف اور محب وطن ہو ایک چور کبھی بھی دوسرے چور کا احتساب نہیں کرتا بلکہ وہ اسے تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ جب کبھی وہ زیر عتاب آئے تو اسکی بھی جان بچ جسکے۔