بلوچستان پاکستان کا رقبہ کا لحاظ سے سب سے بڑا اور معدنیات کے لحاظ سے اہم ترین صوبہ ہے۔ اس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے، جو کہ ملک کے کل رقبے کا 43.6 فیصد بنتا ہے جب کہ آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے جو کُل آبادی کے چھے فیصد بنتی ہے۔ اس کے شمال میں خیبر پختون خواہ اور افغانستان، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جب کہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ یہ سرزمین پہاڑ، میدان اور ریگستانی علاقوں کو ملا کر سمندری اہمیت میں بھی کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ سی پیک نے اس صوبے کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین ہر لحاظ سے ملک کے وسائل میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند کردار ادا کرتی ہے اور سالانہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا اضافہ کرتی ہے۔
ملک بھر میں معدنیات کے نو بڑے قدرتی ذخائر موجود ہیں جن میں سے پانچ بلوچستان میں ہیں۔ یہ بلوچستانی ذخائر ملک کی معدنیات کا 80 فیصد پیدا کرتی ہیں، جن میں کوئلے، گیس، سونا اور چاندی سے لے کر تیل کے وسیع ذخائر تک کے شواہد ملے ہیں اور ان معدنیات کی تعداد پچاس سے اوپر تک جا پہنچی ہے۔ بلوچستان کی معدنیات دنیا کی بیش قیمت معدنیات میں شمار ہوتی ہیں اور یہاں اتنے قدرتی وسائل موجود ہیں جن کا اگر صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا، لیکن بدقسمتی سے حکومت کی عدم توجہی، اور تعلیمی کمی کے باعث بلوچستان کے اندرونی حالات مخدوش رہے۔ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت بلوچ عوام کو اس صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے سنہرے خواب دیکھا کر الیکشن کے بعد اس صوبے کو ذہن سے ہی نکال دیتی ہے۔
حکومت کی عدم توجہ اور بلوچوں کا پاکستان کے دیگر علاقوں سے رابطہ نہ ہونے کے باعث پاکستان کے دشمنوں خاص طور پر بھارت کو موقعہ ہاتھ لگا اور اس نے اربوں ڈالر کے زریعے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے چند نمک حرام بلوچوں اور انکی سرزمین کو استعمال کیا۔ دنیا میں تجارت کا اہم مرکز گوادر ہونے کے باعث عالمی طاقتوں سمیت خطے کے تمام ممالک کی نظریں بلوچستان پر مرکوز ہیں۔ پاک فوج کی دن رات انتھک محنت اور بلوچستان کے محب وطن عوام کے فورسز کے ساتھ تعاون سے آج بلوچستان مکمل امن کا گہوارہ نظر آتا ہے۔ سی پیک کے مرکز گوادر سے صوبے کے ہزاروں افراد کو روزگار مل رہا ہے۔ بلوچستان میں برسر اقتدار آنے والی نئی حکومت خدمت کے جذبے سے سرشار مسلسل دن رات صوبے کی ترقی کے کوشاں ہے۔ وہ بلوچستان جہاں کچھ عرصہ قبل کوئی پاکستانی بھی نہ قدم رکھ سکتا تھا آج وہاں پاک فوج، ایف سی اور دیگر اداروں کی جانب سے قربانیوں کے نتیجے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔سیاسی امور کے بارے میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اور ایشیائی پارلیمنٹ کی تشکیل کیلئے خصوصی کمیٹی کی کانفرنس گوادر میں ہوئی ۔
کانفرنس میں اٹھائیس ملکوں کے ایک سوسے زائدپارلیمنٹیرین شریک ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان کی سینیٹ کے ارکان، یورپی مندوبین اور اے پی اے کے سیکرٹری جنرل بھی شریک تھے جبکہ اجلاس کا مقصد خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا اور باہمی تعاون سے خطے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔اجلاس کے ذریعے پاکستان نے نئے شہر اور بندرگاہ گوادر کو دنیا سے متعارف کروایا، جہاں شرکائکو شہر گوادر کے حوالے سے خصوصی بریفنگ بھی دی گئی۔اسمبلی کے اجلاس کیلئے گوادر کو خصوصی طور پر سجایا گیا ہے اور بلوچ ثقافتی گروپس مہمانوں کے استقبال کے لیے موجود رہے۔قائم مقام صدر محمد صادق سنجرانی نے ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیاسی امور اور تشکیل ایشیائی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلا س سے خطاب کیا۔محمد صادق سنجرانی نے کہا ہے کہ گوادر علاقے، خطے اور براعظموں کے درمیان ایک بڑی آبی اور زمینی گزر گاہ بننے جارہا ہے جو مختلف ممالک کی معیشتوں کیلئے تجارتی و اقتصادی مواقع پیدا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی پارلیمانی نمائندوں پر مشتمل یہ فورم خطے میں شراکت داری کے فروغ، امن، ترقی، جمہوریت، استحکام کیلئے کوشاں ہے اور اس فورم کی بدولت مثبت سیاست کے فروغ کیلئے مؤثر اقدامات اور جدید رجحانات کی طرف رہنمائی ملے گی۔کانفرنس کے شرکائنے سینیٹ کی قیادت اور انتظامیہ کو بہترین انتظامات پر داد دی اور گوادر کی بطور پورٹ سٹی ترقی اور اس کے خطے کی ترقی میں کردار کو سراہا۔اس کانفرنس کے میزبان اور بلوچستان کے مستقبل نومنتخب سنیٹر کہدہ بابر کی جانب سے شرکائے کانفرنس کی مکمل بلوچستان کے روایتی انداز میں میزبانی کی گئی۔ کہدہ بابر کا تعلق گوادر سے ہی ہے۔
اپنے علاقے کے تعمیر و ترقی کے لیے دن رات محنت کرنے والے نوجوان اس کانفرنس کے انعقاد اور بیرون ممالک سے آئے مندوبین کی گوادر میں دلچسپی پر بے حد خوش دکھائی دیے۔ایشین پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس سے جہاں بیرون ممالک کے نمائندوں کی پاکستان آمد خوش آئند ہے وہیں کانفرنس میں شریک ممالک کی جانب سے سی پیک اور بلوچستان میں بھاری سرمایہ کی توقع ہے۔ اس کانفرنس سے جہاں پاکستان کا مثبت چہرہ اور امن و امان کی گونج دنیا میں سنائی دی، وہیں دشمن کا پروپیگنڈا بری طرح ناکام ہوا۔ پاکستان کا مستقبل اور معشیت کا بڑا انحصار آگے چل کر یقینا سی پیک پر ہوگا۔ ایسے میں خوشحال بلوچستان ہی خوشحال کی پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے۔