میرے سجدے کہاں گئے

London Bridge River Thames

London Bridge River Thames

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
لندن برج دریائے ٹیمز رات کے وقت جدید برقی قمقوں کی وجہ سے رنگ و نور میں نہایا ہوا تھا یوں لگ رہا تھا جیسے سینکڑوں روشن چاند زمین پر اتر آئے ہیں۔ رنگ و نور کے اس سیلاب میں ہزاروں سیاح تیزی سے ہنستے مسکراتے اِدھر اُدھر جا رہے تھے۔ نوجوان نسل دنیا مافیا سے بے خبر اپنے آپ میں ہی گم تھی۔ جبکہ دریائے ٹیمز کے ایک گوشے میں ایک بے بس لاچار دُکھی بوڑھی ماں اپنی زندگی کا سب سے بڑا روگ سنا رہی تھی۔

اپنی داستان ِ الم سناتے سناتے اُس کے چہرے کا رنگ زرد سیاہ پڑ گیا اور حالت اتنی متغیر ہوئی کہ وہ برسوں کی بیمار نظر آرہی تھی ۔ اُس کی داستان کیا تھی ایک زلزلہ تھا جس نے میرے دل کی دنیا کو زیرو بر کر دیا ۔ ہم حیرت و استعجاب میں ڈوبے پتھر کے مجسموں کا روپ دھار چکے تھے ۔ بوڑھی ماں کے بولنے کا انداز اِس قدر اثر انگیز تھا کہ ہم خامو ش اور ساکت تھے ۔ جیسے ہمارے جسموں سے روح پرواز کر گئی ہو ۔ اُس کو دکھ اور ظلم جو اُس پر ہوا اتناتاریک اور سیاہ تھا کہ شاید قیامت تک ہونی والی بارش ، سمندروں ، دریائوں کا پانی بھی اُس کی سیاہی کو نہ دھو سکے ۔ دریائے ٹیمز کا کنارہ جو کچھ دیر پہلے سحر انگیز منظر پیش کر رہا تھا اب یوں لگ رہا تھا کہ آسمان سے غم اور دکھ کی بارش ہو رہی ہے ۔ ہوائیں اور فضائیں بھی اُس کے دکھ کی وجہ سے ماتمی لباس میں ملبوس نظر آرہی تھیں ۔ اُس کی رقت انگیز داستان اتنی زیادہ درد ناک تھی کہ ہماری قوت ِ گو یائی سلب ہو کر رہ گئی تھی۔

اُس کو سراپا سر سے پائوں تک سوالیہ نشان بن چکا تھا وہ اسفہامیہ اور ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ میرے ساتھ یہ ظلم کیوں ہوا ۔ آخر میری کوئی دعا قبول کیوں نہیں ہو ئی ۔ میرا دل و دماغ اور ہوش و حواس غم کے سمندر میں غرق ہو چکے تھے میری زبان گنگ تھی اور الفاظ ، گفتگو پتہ نہیں کہاں ہوا میں تحلیل ہو چکے تھے ۔ اُس کی روح باطن ، دل و دماغ میں سمایا ہوا یہ کرب اور اضطراب اب چاروں طرف پھیل چکا تھا ۔ آہستہ آہستہ میرے حواس نارمل ہو نا شروع ہو ئے تو مجھے بریڈ فورڈ کے قاری صاحب یاد آئے جنہوں نے لمبی چوڑی دعوت کی اور آخر میں ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے بیٹھ گئے کہ کسی طرح میری بیٹی کو روہ راست پر لائیں وہ زار و قطار روتے جا رہے تھے اور بار بار ایک ہی بات کہ میری بیٹی کو سیدھے راستے پر لائیں لیڈز کی کشمیری ماں جو نیم پاگل ہو چکی تھی جس نے پونڈوں کا ڈھیر میرے سامنے لگا دیا جب میں نے کہا کہ میں پیسے نہیں لیتا تو وہ اور زیادہ نوٹ نکالتی جاتی اور ایک ہی تقاضہ کہ میری بیٹی واپس کب آئے گی ۔ بر منگھم کے پیر صاحب جو ساری زندگی لوٹ مار کر تے رہے اور اب جب ان کی بیٹی نان مسلم کے ساتھ بھاگ گئی تو سوالی بن کر زارو قطار روتے کہ اُن کی عزت خطرے میں ہے ۔ اور لندن کی نیم پاگل ماں جس کا خاوند فوت ہو چکا تھا اپنی بیٹی کے غم اور جدائی میں نیم پاگل ہو چکی تھی مانچسٹر کا جوڑا جو پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن میں تھا اور واپس پاکستان اِسی خوف سے نہیں جا رہا تھا کہ کسی نے بیٹی کے کر توت پاکستان نہ بتا دیے ہوں بریڈ فورڈ کی گجراتی مسلمان فیملی جو اپنی بیٹی کے روگ میں گھر بار ساری دولت جھوٹے بوبوں عاملوں کو لٹا کر بھی ناکام کے ناکام تھے۔

Depression

Depression

اِن کے علاوہ بے شمار اور جوڑے جو جوانی میں یورپ اور برطانیہ کے نشے میں یہاں آتو گئے لیکن جب بچے جوان ہوئے تو بر طانیہ کے مادر پدر آزاد ماحول کے عفریت نے اُن کے بچوں کو نگلا تو اب وہ ڈپریشن اور نیم پاگل زندگی گزار رہے تھے لندن کا ہی وہ بوڑھا باپ مجھے آج تک یاد ہے جو اسلحہ ڈھونڈ رہا تھا کہ کسی طرح اگر اُس کو کوئی ہتھیار مل جائے تو وہ اپنی بیٹی کو مار دے وہ بوڑھا باپ پاگل ہو چکا تھا بیوی بچوں نے اِسی وجہ سے اُسے گھر سے نکال دیا تھا اور وہ زندگی کو چلانے کے لیے اِدھر ادھر سہاروں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا کبھی وہ ہوش میں ہوتا کبھی نیم پاگل بے بسی اور لاچارگی کی زندگی گزار رہا تھا مجھے پاکستان کے بے شمار وہ نوجوان یاد آئے جن پر ایک جنون سوار ہو تا ہے کہ کسی نہ کسی طرح یورپ امریکہ یا برطانیہ چلے جائیں۔

اِس کے لیے وہ اپنا آپ اپنی جائیداد بھی بیچنے کو تیار ہوتے ہیں اور جب کسی نہ کسی طرح یہاں آجاتے ہیں تو مزدوری کے گھوڑے بن جاتے ہیں مصروفیت اتنی زیادہ کہ اپنا بھی ہوش نہیں وقت کی چند کروٹوں کے بعد جب جوانی کے بعد بڑھاپا آتا ہے ۔ اور نوجوان اولاد مغرب کے رنگ میں رنگی جا چکی ہوتی ہے تو وہ چیختے چلاتے ہیں لیکن اولاد ماں باپ کو ٹھوکر مار کر بھاگ جاتی ہے اور ماں باپ بے بسی کی تصویر بنے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں جو لوگ یہاں کی چکا چوند زندگی سے متاثر ہو کر آتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ملک ، معاشرہ اور قوانین اِن لوگوں نے اپنے لیے بنائے ہیں یہ لوگ خدا اور مذہب کو چھوڑ چکے ہیں اور جب اِس معاشرے میں بچے جوان ہوں گے تو یقینا اِس معاشرے کے رنگوں میں ڈھلے ہوں گے تو ماں باپ کس بنیاد پر یہ توقع کرتے ہیں کہ نوجوان نسل ماں باپ کی بات مانے گی۔

جب اولاد نافرمان ہوتی ہے تو یہ بابوں ، عاملوں ، تعویز گنڈوں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں یہاں پر جھوٹے عاملوں اور بنگالی جادوگروں کا سیلاب آیا ہوا ہے جو مجبور اور بے بس والدین کو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں اِن کی باتوں میں آکر مجبور والدین اپنا وقت اور پیسہ دونوں بر باد کرتے ہیں ۔ والدین کرامتوں کے انتظار میں ایک بابے سے دوسرے بابے کے در پر دھکے کھاتے ہیں ۔ اِسی بھاگ دوڑ میں یہ بوڑھی بے بس لاچار ماں میرے سامنے سوالیہ نشان بنی بیٹھی تھی ۔ جب رو رو کر یہ تھک گئی تو اب میری طرف خاموشی سے دیکھ رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد بولی سر بتائیں میری دعائیں کیوں نہیں قبول ہو تیں۔ یہ عورت بھی یہ بھول بیٹھی تھی کہ بعض اوقات خالقِ ارض و سما بندے کا ذوق طلب بڑھانے اور شوق بڑھانے کے لیے دعا کی قبولیت میں دیر کر دیتا ہے۔

Allah

Allah

خدا تعالی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ یہ بندہ واقعی مجھے رب مانتا ہے یا ابھی بھی کسی دنیاوی جھوٹے سہارے یا خدا کی امید لگائے بیٹھا ہے اور محض میری رحمت ٹٹولنے آیا ہے شہنشاہ ِ دو عالم ۖ کا فرمان ہے کہ جب کو ئی انسان دعا کر تا ہے تو تین بار دب ِ ذولجلال اپنا رُخ اِدھر اُدھر کر تا ہے مگر چوتھی بار خدائے بزرگ و بر تر کا کرم جھلک پڑتا ہے اور بندے کی سالوں پرانی ٰخواہشوں کی تکمیل کر دیتا ہے ۔ انسان فطری طور پر جلد باز اور بے صبرا ہے ۔ اپنی اِس عادت کی وجہ سے وہ رحمتِ حق کو تو نہیں بلکہ خو د کو آزمائش میں ڈال لیتا ہے ورنہ ربِ کائنات تو سمندروں کی گہرائیوں میں پتھر کے درمیان کیڑوں کی ضروریات سے بھی واقف ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اشرف المخلوقات انسان کی نہ سنے۔

انسان کتنا بھی گنہگار ، نیکوکار ، تہجد گار ، پر ہیز گار ، خوش اطوار ہو یا بد کردار دینے والا منہ دیکھ کر نہیں دیتا اپنی شانِ کرم دیکھتا ہے ۔ مایوسی گناہ ہے اور میری زندگی میں ہزاروں ایسے لمحات آچکے ہیں جب میں بھی مایوس ہو گیا لیکن میرے سوہنے رب نے ہمیشہ میری مدد کی اِسی امید پر میں نے بوڑھی ماں کو چند وظائف بتائے کہ انشا ء اللہ جلدی اللہ تعالی کوئی اچھا راستہ ضرور نکالے گا میں نے بوڑھی ماں کو بہت حوصلہ اور تسلی بھی دی میرے حوصلہ دینے سے وہ آنکھوں میں امید کی شمع جلائے رخصت ہو گئی اور میں لندن کی بلند و بالا عمارتوں اور دریائے ٹیمز کے پانی پر جدید ترین جہازوں کو تیرتے ہوئے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے وہ قدرت کے رازوں کو نہیں پا سکتا شاید اِس دکھی ماں کا کیس بھی ایسا ہی راز ہے۔

Prof. Abdullah Bhatti

Prof. Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956