تحریر : محمد شاہد محمود وزیر اعظم میاں نواز شریف سے گزشتہ روز ان کی رہائش گاہ جاتی امراء میں سعودی عرب کے دس رکنی وفد نے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت سعودی وزیر مملکت نے کی۔ وفد ریاض سے خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور پہنچا۔ 25منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں یمن سعودی عرب بحران اور دیگر اہم باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وفد کے ارکان نے پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کے استحکام کیلئے ممکنہ اقدامات اور قربانی دینے کے جذبے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے اسے پاکستان کیلئے اعزاز اور اپنا فرض قرار دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کا استحکام پاکستان کے استحکام سے مشروط ہے۔ پاکستانی عوام حرمین شریفین کے تحفظ اور سعودی سلامتی کیلئے ہر طرح کی قربانی کا عزم کئے ہوئے ہیں۔آج عالم اسلام میں اتحاد و یک جہتی کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یمن کی قانونی حکومت کے خلاف کسی بھی بغاوت کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ ہم یمن کے مسئلے کا پر امن حل چاہتے ہیں جس کیلئے پاکستان اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے دیگر مسلم ممالک سے بھی رابطے ہیں اور سب یہی چاہتے ہیں کہ خون خرابے کے بجائے مسئلہ کا پر امن حل نکلے جس پر وفد نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ سعودی حکومت اور عوام پاکستان کے کردار کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حرمین شریفین کے دفاع کے لئے جہاں حکومت پاکستان نے دوٹوک اعلان کیا وہیں مذہبی جماعتیں بھی ملک گیر تحریک چلا رہی ہیں۔پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی ،رفاہی و فلاہی جماعت جماعة الدعوة نے ملک گیر تحریک کے تحت اسلام آباد،لاہور،فیصل آباد،ہری پور،پشاور میں ”تحفظ حرمین شریفین کانفرنسوں کا انعقاد کیا” جن میں پاکستان کی دیگر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔وطن عزیز پر جب بھی کوئی مشکل پیش آئے جماعة الدعوة فرنٹ لائن پر نظر آتی ہے۔امریکی ڈرون حملوں کے خلاف جماعة الدعوة نے لانگ مارچ کیا۔کشمیریوں کی تحریک آزادی سے یکجہتی کے لئے ملک گیر پروگرام ان کے منشور کا حصہ ہیں۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو متحد کیا اب حرمین کے دفاع کا مسئلہ آیا تو پروفیسر حافظ محمد سعید نے ہی تمام جماعتوں کو یکجا کر کے ”پاسبان حرمین شریفین” کے پلیٹ فار م سے پروگرام کئے اور اتحا دو یکجہتی کا ثبوت دے کر دشمنوںکو یہ پیغام دیا کہ حرمین کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ بنانے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔سیاسی جماعتوں کے آپس میں سیاسی اختلافات حق ہیں لیکن حرمین کا مسئلہ ایسا ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ہری پور میںمذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جماعةالدعوة کی تحفظ حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حرمین کے تحفظ کی جنگ پرائی نہیں ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
Ban ki Moon
بان کی مون کے کہنے پر پاکستان کی فوج جاسکتی ہے تو خادم حرمین الشریفین کی اپیل پر کیوں نہیں جاسکتی؟۔نواز شریف کے پالیسی بیان سے ابہام کا ازالہ ہوا لیکن صرف پالیسی بیان کافی نہیں بلکہ آگے بڑھ کر تعاون کرنا چاییئے۔تحفظ حرمین شریفین کے مسئلہ پر غیر جانبدار رہنے کی باتیں کرنے والے ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں۔پاکستانی قوم سعودی عرب کے دفاع کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کیلئے تیار ہے۔حکمرانوں کو بروقت فیصلے کرنے چاہئیں اور حرمین شریفین کے تحفظ کیلئے سعودی عرب کے ہر مطالبہ کو پورا کرنا چاہئے۔ گرائونڈ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1ریلوے روڈ میں ہونے والی تحفظ حرمین شریفین کانفرنس سے امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا نصر جاوید،ایم پی اے گوہر نواز خان،مولانا رب نواز،ابو ولید ہزاروی،مولانا مجتبیٰ،قاضی گل رحمان،پیر عالم زیب،مولانا فضل الرحمان مدنی،مولانا ابو جابر خالد،مولانا سیف اللہ خالد،مولانا خورشید خان،مولانا عبدالوحید،سلیم عابد،حارث ڈار،قاری یعقوب ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر زبردست جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔ شرکاء کی جانب سے حرمین شریفین سے رشتہ کیا’ لاالہ الااللہ، حافظ محمد سعید قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘ کے زوردار نعرے لگائے گئے اور سعودی عرب کی ہر ممکن مدد کا مطالبہ کیا گیا۔
جماعةالدعوة کی جانب سے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ ہزاروں افراد کو مکمل جامہ تلاشی کے بعد پنڈال میں جانے کی اجازت دی گئی۔ شرکاء کیلئے وسیع پیمانے پر کئے گئے انتظامات کم پڑنے پر لوگوں کی کثیر تعداد نے پنڈال کے دونوں اطراف کھڑے ہو کر مقررین کے خطابات سنے۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے اعلان کیا کہ ہم سعودی عرب کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔سعودی عرب نے کبھی جارحیت نہیں کی۔پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد جب عالمی پابندیاں لگیں سعودی عرب نے ساتھ دیا۔آج سعودی عرب پر مشکل وقت ہے۔پاکستان کو بھرپور مدد کرنی چاہیئے۔ہر مسئلہ سے بڑا مسئلہ حرمین کا تحفظ ہے۔وہ ہمیں ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں۔مسلمانوں کے دل حرمین اور سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔سعودیہ کی یمن یا ایران سے جنگ نہیں نہ شیعہ سنی جنگ ہے۔سعودی عرب باغیوں کو کچل کر خطے کا امن بچانا چاہتا ہے.یہ حق اور بابل کے درمیان لڑائی ہے۔
جماعت الدعوہ ملک بھر کی جماعتوں کو حرمین کے تحفظ کے لیے متحد کررہی ہے۔حالات بہتر سے بہتر ہورہے ہیں۔امت کو متحد کرکے دفاع حرمین کی بھرپور تحریک چلارہے ہیں۔پاکستان عالم اسلام کا دفاعی مرکز ہے۔اے اللہ پاکستان کی حفاظت فرما تاکہ یہ عالم اسلام کا دفاع کرسکے۔ضلع کونسل چوک فیصل آباد میں تحفظ حرمین شریفین کانفرنس سے امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، مولانا امیر حمزہ،مولانا یوسف انور،محمد حنیف بھٹی، قاری یعقوب شیخ، سلیم الرحمان،عبدالرزاق عابد،جاوید اختر قادری،مفتی محمد ضیا مدنی،قاری محمد اصغر،سردار ظفر حسین ، حافظ فیاض احمد ودیگر نے خطاب کیا۔حافظ محمد سعید نے کہا کہ اس وقت حوثی باغی سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں۔وہ مکہ اور مدینہ کو اپنا ٹارگٹ قرار دے رہے ہیں جس کے بعد سعودی عرب نے دیگر عرب ممالک سے مشاورت کی اور پھرباغیوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا۔یمن کے باغیوں نے سعودی عرب کی سرحد پر حملے کئے اور سرزمین حرمین شریفین کیلئے خطرات کھڑے کئے۔ جس کے بعد عرب اتحاد یمن میں بغاوت کچلنے کیلئے کاروائی کر رہا ہے۔
Saudi Arabia
سعودی عرب نے کبھی کسی پر جارحیت نہیں کی بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے دکھ درد کو محسوس کیا اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔جماعةالدعوة کے زیر اہتمام چوبرجی چوک لاہورمیں ہونے والی کانفرنس سے امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، پروفیسر حافظ عبدالرحمان مکی،ڈاکٹر فرید احمد پراچہ،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر،سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، علامہ زبیر احمد ظہیر ،حافظ عبدالغفار روپڑی، مولانا امیر حمزہ ، قاری یعقوب شیخ، مولانا سیف الدین سیف،مفتی مبشر احمد ربانی ،مولانا سیف اللہ خالد، جمیل احمد فیضی ایڈوکیٹ، شیخ نعیم بادشاہ، مولا نا غلام رسول ، شرافت خان ایڈوکیٹ،مولانا ابوالہاشم،علی عمران شاہین، مولانا ادریس فاروقی و دیگر نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
سعودی عرب کی حمایت میں لاہورمیں ہونے والا یہ بہت بڑا پروگرام تھا جس میں شہر بھر سے لوگوں نے شرکت کی اور حرمین شریفین کے تحفظ کا عہد کیا۔ حافظ محمد سعید کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس مسئلہ کو الجھا کر پیش کیاجارہا ہے۔ یہی کچھ پارلیمنٹ میں کیا گیا۔یہ دکھائی نہیں دیتا تھا کہ یہاں منتخب ممبران پارلیمنٹ سرجوڑ کر بیٹھے ہیں بلکہ فرقہ وارانہ نوعیت کی باتیں کی گئیں۔ چار دن تک یہ بحث ہوتی رہی کہ اگر سعودی عر ب کی مدد کی گئی تو ایران ناراض ہو جائے گا۔ کبھی ایران نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس مسئلہ کا فریق ہے اور بغاوت میں اس کا کوئی کردار ہے؟ اگر وہ انکار کرتا ہے تو پھر اراکین پارلیمنٹ کس طرح کہتے ہیں کہ ایران ناراض ہو جائے گا۔ سعودی عرب کی سرحد یمن کے ساتھ ملتی ہے ایران کی تو کوئی سرحد بھی نہیں ملتی۔
انہوں نے کہ کہ صلیبی و یہودی چاہتے ہیں کہ اصل مسئلہ پیچھے رہ جائے، سعودی عرب کی امداد کیلئے کوئی نہ پہنچ سکے اور مسلم ملکوں میں فسادات کھڑے کر دیے جائیں۔یہ بہت خوفناک سازش ہے جسے ہم نے متحد ہو کر ناکام بنانا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سعودی عرب کو کوئی خطرہ ہوا تواس وقت مدد کریں گے ہم پوچھتے ہیں کہ کیاجب باغی حرمین تک پہنچ جائیں گے پھر مدد کیلئے پہنچو گے۔مسلم ملکوں کو جو توقعات تھیں وہ کم نہ ہوتیں اور پاکستان کا اسلامی تشخص مجروح نہ ہوتا۔ انہوں نے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکوں میں بھارت کا نام آتا تھا ‘ اس لئے ا س کی ناراضگی کا خوف تھا تو ان کیمرہ اجلاس بلایا گیا لیکن حرمین شریفین کے تحفظ کے مسئلہ کر قراردادوں کے سپردکر کے بچوں کا کھیل بنا دیا گیا۔ یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے۔