پاکستان میں مسائل پرکئی سالوں سے الزام تراشی اور نئی نئی بحثوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آج کل ہرمحفل میں یہ بحث ہورہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر وہ کام کر دکھایا ہے جو ملک بھر کے سیاسی دماغ اور ذہین و فطین لوگ بھی سرانجام دینے میں ناکام رہتے ۔ حکومت نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کو قومی اسمبلی سے اکثریت کے زور پر منظور کروا کے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا ہے ۔
اب ایک طرف حکومت کی مسلم لیگ (ن) ہے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، متحدہ قومی موومنٹ ، اور دیگر تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ حتیٰ کہ حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام(ف) نے بھی اس سوال پر حکومت کے ساتھ دینے سے انکار کیا اور اب حکومت سے بھی علیحدہ ہو گئی ہے ۔ حکومت نے اپوزیشن کی للکار ، دھمکیوں اور انتباہ کے باوجود یہ آرڈیننس قومی اسمبلی سے منظور کروا لیا ہے ۔ اب پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اس بل کو مسترد کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے کا قصد ظاہر کیا ہے تا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اسے سپریم کورٹ سے خلاف آئین قرار دلوایا جا سکے ۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے تو یہ پرجوش بیان بھی جاری کر دیا ہے کہ متحدہ آخری کارکن تک اس کالے قانون کے خلاف سینہ سپر رہے گی۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے نقائص کے علاوہ سیاسی نقطہ نظر سے یہ رویہ ناقابل فہم ہے کہ بحران کا شکار ملک میں حکومت کو محض اپنی اکثریت کے بل بوتے پر ایک متنازعہ بل منظور کروانے کی کیا ضرورت تھی۔ قومی سلامتی اور دہشت گردی کی روک تھام ایک قومی مسئلہ ہے ۔ ملک کی تمام سیاسی قوتیں ان مسائل سے نمٹنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو پارلیمنٹ کے محض ایک ایوان میں اکثریت کی بنیاد پر، اس سوال پر اجارہ داری حاصل نہیں ہو جاتی۔اس وقت ملک کو سنگین مسائل سے نمٹنے کے لئے قومی یکجہتی ، سیاسی اتفاق رائے اور مل جل کر سوجھ بوجھ سے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے باوجود تحفظ پاکستان آرڈیننس کی صورت میں ایک مشکل تنازعہ کھڑا کر لیا گیا ہے۔
نئے آرڈیننس کے حوالے سے سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ یہ آئین کی شق 12 کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ یعنی اس قانون کا اطلاق ماضی میں کئے جانے والے اقدامات پر بھی ہو گا۔ اب سکیورٹی اداروں کو کسی شخص کو تین ماہ تک بغیر جواز ، ثبوت اور عدالتی حکم کے حراست میں رکھنے کا اختیار ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ معاملات خصوصی عدالتوں میں سماعت کے لئے پیش کئے جائیں گے ۔ ان فیصلوں کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔ اس طرح انصاف کی فراہمی کا جو طریقہ ملک کے آئین اور نظام قانون نے وضع کیا ہے ، اسے تبدیل کر دیا جائے گا۔
انفرادی طور پر اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے ۔ اس پٹیشن میں تحفظ پاکستان آرڈیننس کو آئین پاکستان کے علاوہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کی خلاف ورزی بھی قرار دیا گیا ہے ۔ اس درخواست میں درج ذیل نکات اٹھائے گئے ہیں۔ 1۔ یہ قانون آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق کو متاثر کرتا ہے۔ 2۔ شہریوں سے مقدمے کی منصفانہ پیروی کا حق چھین لیا گیا ہے ۔ 3۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے برعکس 18 گریڈ کے افسروں کو عدالتی اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔ اس طرح انتظامیہ اور عدلیہ میں فرق کرنے کا اصول متاثر ہو گا۔ 4۔ آرڈیننس کے تحت بغیر وارنٹ گرفتاری کا اختیاردیا گیا ہے جو عدالتی اختیار کی خلاف ورزی ہے۔
Court
5۔ سکیورٹی فورسز کو محض شک و شبہ کی بنا پر کرنے اور مشتبہ شخص کو ہلاک کرنے کا اختیار ہو گا۔ اس طرح ماورائے عدالت قتل کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ 6۔ کسی حکم کے بغیر کسی گھر کی تلاشی کا اختیار دیا گیا ہے ۔ اس طرح چار دیواری کے تحفظ کا اصول متاثر ہو گا۔
7 کسی بھی شخص کو محض انتظامی حکم پر 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکے گا اور متعلقہ حکام عدالت کو اس شخص کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے بھی پابند نہیں ہوں گے۔ 8۔ یہ ذمہ داری اب ملزم پر ڈال دی گئی ہے کہ وہ کسی معاملہ میں ملوث ہونے کی صورت میں اپنی بے گناہی ثابت کرے ۔ انتظامیہ پر جرم ثابت کرنے کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اس طرح Burden of proof کا بنیادی اصول متاثر ہو گا۔ 9۔ اپیل کا ایک ادارہ ختم کرتے ہوئے کسی مقدمہ کے فیصلہ کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ یہ طریقہ کار بنیادی اصولِ قانون سے متصادم ہے۔
10 ۔ اس قانون کا اطلاق ماضی میں لاپتہ ہونے والے لوگوں کے معاملات پر بھی ہو گا۔ یہ طریقہ کار آئین کے علاوہ مسلمہ اصولِ انصاف کے بھی خلاف ہے۔ 11۔ اس قانون کو تعزیرات پاکستان کے دیگر تمام قوانین پر فوقیت ہو گی۔ یعنی ملزم کسی دوسرے قانون کے تحت ریلیف حاصل کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔
ملک میں دہشتگردی کی صورتحال کے پیش نظر سکیورٹی معاملات کے ماہرین اس قسم کے قانون کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی قانون کے حوالے سے یہ دلیل کہ سکیورٹی فورسز اس کا غلط استعمال کریں گی ، قابل قبول جواز نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ دلیل تو ملک میں نافذ کسی بھی قانون کے بارے میں دی جا سکتی ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر بنایا جائے تا کہ پولیس اور دیگر اداروں کو کسی بھی قانون کے بے جا استعمال کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔
دوسری طرف یہ اصرار بھی کیا جا رہا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کی وجہ سے زیادہ سخت قوانین کی ضرورت ہے ۔ موجودہ قوانین کے تحت انتہائی سنگین معاملات میں ملوث لوگ بھی یا تو بری ہو جاتے ہیں یا اوہ ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ اور یہ لوگ دوبارہ اسی قسم کی سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی فورسز کو مستحکم کرنے اور انہیں وسیع اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔