تحریر : محمد اشفاق راجا پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز، نائب ولی عہد اور وزیردفاع محمد بن سلمان اور سعودی آرمی چیف جنرل عبدالرحمن بن صالح البنیان سے ملاقاتیں کیں جن میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، ایک نئے عزم کے ساتھ کام کرنے اور علاقائی استحکام کے لئے مل کر جدوجہد کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے درمیان شدت پسندی سے نپٹنے کے لئے میکنزم مضبوط بنانے پر زور دیا گیا اور دفاعی سطح پر تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔
پاک فوج کے سربراہ نے سعودی حکومت کو مکمل سیکیورٹی تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی قریبی تعلقات، اخوت اور بھائی چارہ، پائیدارشراکت داری میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کا پوری امتِ مسلمہ کے لئے اہم ذمہ داری کے ساتھ علاقائی استحکام میں اہم کردار ہے، دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور انتہا پسندی سے زیادہ موثر انداز میں نپٹنے کے لئے طریقِ کار مضبوط بنانے پر زور دیا گیا جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی وزیر دفاع اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی جنہوں نے پاک فوج کے سربراہ کو یقین دلایا کہ سعودی عرب پاکستان میں امن و استحکام کی حمایت کرتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حرمین شریفین کی سلامتی اور تحفظ اور سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
پاکستان اور سعودی عرب اسلام کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور حرمین شریفین کا تحفظ پاکستان اور پاکستانی فوج اپنے ایمان کا حصہ تصور کرتی ہے۔ سعودی عرب کے قرب و جوار میں بعض ملکوں خصوصاً یمن کے حالات ایسے ہیں کہ ان کے عدم استحکام کا ملبہ سعودی استحکام کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سعودی عرب کو ہمیشہ یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ پورا ملک امن کا گہوارہ تھا اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایسی فضا موجود تھی جس میں بدامنی راہ نہیں پا سکتی تھی لیکن گزشتہ چند برسوں میں بیرونی عناصر نے بعض مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر سازشیں تیار کیں اور سعودی عرب کے کئی شہروں میں مسجدوں کے اندر، باہر دھماکے کرائے۔ یہاں تک کہ رمضان کے مبارک مہینے میں مسجد نبوی کی پارکنگ میں بھی ایک دھماکہ ہو گیا۔ ایسے دھماکوں کا کوئی تصور اس سے پہلے سعودی عرب میں موجود نہیں تھا اور نہ کسی نے اس سے پہلے کبھی ایسی جسارت کا سوچا تھا۔
ایسے حملوں کے پس پردہ مقاصد کو بھانپ کر اور ان میں پوشیدہ خطرات کا قبل از وقت ادراک کرتے ہوئے سعودی سیکیورٹی حکام نے پیش بندی کے طور پر بعض اقدامات کئے اور جہاں جہاں سیکیورٹی انتظامات میں رخنے محسوس کئے انہیں پاٹنے کی پوری کوشش کی، جو عناصر دھماکوں میں ملوث پائے گئے ان سے کسی قسم کی رورعایت کا طرزِ عمل بھی مجبوراً ختم کرنا پڑا اور جن لوگوں کو عدالتوں سے سزائیں ہو چکی تھیں ان پر عملدرآمد کرا دیا گیا، تو توقع کے مطابق اس پر ردعمل بھی آیا تاہم سعودی حکام نے اس کی پروا نہ کی اور جو اقدامات بھی اپنی ملکی سلامتی کے لئے ضروری خیال کئے، وہ اٹھائے گئے۔ایسے ہی سیکیورٹی خدشات سے نپٹنے کے لئے سعودی عرب نے 34 ملکوں کی ایک اسلامی فوج تشکیل کرنے کا بھی اعلان کیا جس کا پاکستان کو بھی حصہ بنایا گیا اگرچہ اس معاملے پر پاکستان کے اندر بعض روایتی اختلافات بھی سامنے آئے اور پاکستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے یہاں سعودی حکومت کے اقدام پر نکتہ چینی کا ایک سلسلہ بھی چل پڑا، اس سے پہلے سعودی حکومت نے یمن سے درپیش خطرے سے نپٹنے کے لئے پاکستان سے فوجی اعانت طلب کی تھی، چونکہ یمن کے باغیوں کی حمایت ایران کر رہا تھا اس لئے پاکستان میں یہ رائے سامنے آئی کہ پاکستان کی فوج سعودی عرب میں مقیم ہوگی اور سعودی فوج کے ساتھ مل کر یمن پر حملہ آور نہیں ہو گی۔
Pakistan-Saudi Arabia Relations
معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر پاکستان نے اپنی فوج کا کردار سعودی سرزمین تک محدود کر دیا کیونکہ بیرون سعودی عرب کردار کی وجہ سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں ملک کے اندر بھی پاکستان کی فوج مختلف محاذوں خصوصاً دہشت گردی کے محاذ پر مصروف تھی اس لئے فوج بھیجنے کے معاملے پر پیش رفت نہ ہو سکی تاہم پاکستان نے یقین دلایا کہ اگر سعودی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی فرمانروا اور سعودی قیادت کو جو یقین دہائی کرائی ہے یہ سارا پس منظر ان کے ذہن میں ہوگا۔مشرقِ وسطیٰ کے مخصوص حالات اور بعض ملکوں میں داعش کی سرگرمیوں نے کئی ملکوں میں عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے۔ شام تباہ حال ہے۔ اس سے پہلے عراق کو دو جنگوں اور بعدازاں دہشت گردی نے برباد کر دیا۔
قذافی کے بعد لیبیا میں بھی عدم استحکام کی کیفیت ہے، اسی طرح قرب و جوار کے ملکوں کو بھی خطرات ہیں ان حالات میں دہشت گردی کے خطرات سے نپٹنے کے لئے اسلامی ملکوں کی فوج بنانے کا خیال اگرچہ بروقت تھا تاہم اس سلسلے میں مسلمان ملکوں کے درمیان بہت سے اختلافات موجود ہیں اور جن کو اس فورس کا رکن نہیں بنایا گیا کہ وہ اسے مخصوص زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے اور اس فورس کو صحیح معنوں میں اسلامی ملکوں کی ایک مضبوط عالمی فورس بنانے کے لئے نئی گائیڈ لائنز تیار کرے کیونکہ عرب ملکوں میں دہشت گرد خشکی کے علاوہ بحری راستے سے بھی داخل ہوتے ہیں جنگجو تنظیمیں بھی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں شام میں اگرچہ ان تنظیموں کو شکست کا سامنا ہے اور ان کے قبضے سے کئی علاقے شامی فوج نے واپس لے لئے ہیں تاہم ان جنگجو تنظیموں کے عزائم کی راہ میں مضبوط دفاعی دیوار کھڑی کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا کردار قائدانہ ہے اس لئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں سعودی عرب کو درپیش خطرات میں کھل کر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے اور حرمین شریفین کے تحفظ کے سلسلے میں پاکستانی فوج کا کردار زیر بحث آیا ہے۔ تاہم اسلامی فوج کو ایک مضبوط فورس بنانے کے لئے ایک وسیع تر پروگرام پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ توقع ہے پاکستان سعودی حکومت کے ساتھ مل کر اس سلسلے میں اپنا تاریخی کردار ادا کرے گا۔