محافظ خود تحفظ کے متقاضی

Police

Police

تحریر : ملک محمد سلمان

گذشتہ روز سے بیشتر نیوز چینلز اور اخبارات میں یہ خبر نمایاں ہے کہ ایس پی انوسٹی گیشن کی مبینہ ڈانٹ ڈپٹ پر دلبرداشتہ اسسٹنٹ سب انسپکٹرامتیاز نے خودکشی کر لی۔خبر کے مطابق ایس پی انویسٹی گیشن کینٹ شاہنواز نے اے ایس آئی باغبانپورہ امتیاز کو ڈانٹنے کے بعد معطل کر دیا تھا جس پر امتیاز نے دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔

خبر دیکھتے ہی نوجوان پولیس آفیسر کی المناک موت پر دل رنجیدہ بھی ہوا اور افسران پر غصہ بھی آیا۔ان تمام پولیس افسران کے چہرے سامنے آنے لگے جو خدا کی زمین پر خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔طبع نازک پر زرا سی بات کیا ناگوار گزری فوری طور پر تھانے دار معطل ، معمولی سی وجہ اور حکم عدولی پرچھوٹے افسران کی دو دو سال کی سروس ضبط ۔ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے تحقیقات کا آغاز کیا تو حیران کن انکشافات ہوئے ،مبینہ طور پر جس ایس پی سے منسوب کیا جارہا تھا کہ اس نے اے ایس آئی امتیاز کو ڈانٹا اور معطل کیا اس ایس پی کی چند ہفتے قبل ہی نگران سیٹ اپ کی تبدیلی میں یہاں پوسٹنگ ہوئی تھی۔ایس پی شاہ نواز چاچڑ کی اے ایس آئی امتیاز سے آج تک کوئی ملاقات تو درکنار ٹیلیفونک رابطہ تک نہیں ہوا تھا۔اصل کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک نجی ٹی وی کہ صحافی نے 406کے مقدمے میں ایس پی شاہ نواز سے اپنی مرضی کا فیصلہ لینے پر اسرار کیا تو ایس پی نے معذرت کرلی۔ ایس پی کینٹ کے ایریا میں میں اے ایس آئی کی خودکشی کا واقعہ رونما ہوگیا، کرائم رپورٹر نے مبینہ طور پر اپنا بدلہ لینے کیلئے ایس پی ڈانٹ ڈپٹ والی من گھڑت کہانی بنائی اور کرائم رپورٹر زکے واٹس ایپ گروپ میں پوسٹ کردی،سب سے پہلے ایکسکلوزو خبر دینے کے چکر میں دیکھا دیکھی بیشتر ٹی وی چینلر پر خبر بریک ہو گئی اور اخبارات میں بھی من و عن شائع کردی گئی۔

میں ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ بہت سارے کرائم رپورٹر پولیس تھانے کے نام پر ریگولر دھیاڑیاں لگا رہے ہیں۔مذکورہ واقع میں بھی مبینہ طور پر رپورٹر نے دوسری پارٹی سے من پسند فیصلے کی قیمت وصول کی ہوگی۔اسی طرح کا ایک بدلہ اسلام آباد کے ایک کرائم رپورٹر نے ایس ایس پی جمیل ہاشمی سے لیا تھا جب انکا نام افتخار چوہدری تشدد کیس میں میں شامل کر کے سزا دلوائی ۔جمیل ہاشمی خانہ کعبہ میں روررو کر قسمیں اٹھاتے رہے کہ وہ اس دن ڈیوٹی پر ہی نہیں تھے۔بطور صحافی میں شرمندہ ہوں کہ آج صحافت کے نام پر اس طرح کا کھلواڑ کیا جارہا ہے۔

نیوزچینلز خبر کا بہترین اور مئوثر ذریعہ ہیںجو معلومات کی بروقت فراہمی کیلئے ہر کسی کی بنیادی ضرورت ہے۔تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ہر خبر فوراً سے پہلے کے مصداق ٹی وی سکرین پر موجود ہوتی ہے۔ذرائع ابلاغ کا کام عوام کو باخبر رکھنا ہے مگر لمحہ فکریہ ہے کہ مختلف نجی چینلز پر تفریح کے نام پر پیش کیے جانے والے مزاحیہ پروگرامات میں لوگوںکی عزت ِ نفس مجروع کرکے معززین کا مذاق اڑا یا جارہاہے ۔الٹے سیدھے ناموں اور برے القابات سے پکارا جاتا ہے اور مختلف رشتوں پر مبنی کرداروں میں پیش کی جانے والی اخلاق باختہ گفتگو بھی خونی رشتوں کی عظمت و احترام اور ہماری اسلامی و مشرقی روایات کے منافی ہے۔مستقل کرداروں میں پروفیسرجیسے قابل احترام اور اعلیٰ منصب پر فائز شخصیت کوانتہائی تضحیک آمیز رویے کے ساتھ شرمناک جملے کسے جاتے ہیں۔

سب ریٹنگ کی ڈور میں ہواس باختہ ہوئے ہیںاور خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ لائیو ٹی وی شو میںایسے بے حیائی اور بے شرمی والے فقرات بھی بول جاتے ہیںکہ جسے لکھتے ہوئے قلم شرما رہا ہے جبکہ وہ تمام اخلاق باختہ فقرے شوکی زینت بن کر نیوز چینل سے آن ائیر ہوچکے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی چینلز کے تقریباً70فیصد پروگرامات ریکارڈ شدہ ہوتے ہیں اور آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سرحدوں کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں،کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔لاکھ سیاسی اختلافات کے باوجود سیاستدان ہمارے ملک کا سرمایہ اور وطن عزیز کی تعمیر و ترقی کے ضامن ہیں ،ان کی غلطیوں اور ناکامیوں پر مثبت تنقید اور اصلاح کرنے کی بجائے تضحیک کرنا،اخلاقیات سے گرے ہوئے الفاظ کے ساتھ مذاق اڑانا کہاں کی صحافت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ہائوسز مالکان اپنا احتساب کریں او رریٹنگ کی ڈور میں سرپٹ بھاگنے کی بجائے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور آزادی صحافت کے نام ہونے والے اس کھلواڑ کا حصہ نہ بنیں ،بے لگام تفریح اور جانبداری یہی وجوہات ہیں کہ لوگوں کا میڈیا سے اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے ،یہ مکافات عمل ہے کہ نیوزچینلز پر دوسروں کی شکلیں اور نام بگاڑ کر تضحیک کرنے والے اینکرز آج سوشل میڈیا جو کہ کروڑوں پاکستانیوں کی آواز بن چکا ہے پر انہی اینکرز کی بگڑی ہوئی شکلیں ،طنزیہ نام اور بیشمار لعن طعن نظر آتی ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ باقی ماندہ عزت کو سمیت لیا جائے ،تضحیکی اور تخریبی ہتھکنڈوںکی بجائے مثبت اور تعمیری صحافت کو فروغ دے کر میڈیا کا وقار بحال کیا جائے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس جیسے اہم محکمہ میں چھوٹے ملازمین کو یکسر نظر اندازی کا سامنا ہے، چھٹی لینے کی خاطر بھی کرسیوں کی ایک لمبی قطار کو پار کرنا پڑتا ہے ۔دنیا کے کسی ملک میں کسی شعبہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ 24 گھنٹے نہیں ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان میں پولیس کی ڈیوٹی 24 گھنٹے ہے۔ دس سال کاطویل عرصہ گزر جاتا ہے اور اگلے رینک میں ترقی نہیں ملتی۔من پسند فیصلوں کے خواہش مند اور تھانوں سے منتھلی مانگنے والے صحافیوں کی وجہ سے بھی اکثر افسران پریشان رہتے ہیں۔پولیس مسائل کی ایک لمبی فہرست ہے جس کہ تذکرہ پھر کبھی سہی۔مذکورہ واقعہ کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئے ،تاکہ ہر صورت انصاف کا بول بالا ہو ۔محکمہ پولیس کے کرتہ دھرتا اور حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔چھوٹے پولیس افسران اور اہلکاروں کو عزت دیں،ترقی انکا جائزحق ہے اس سے دس دس سال تک محروم کرکر انہیں ذہنی اذیت سے دوچار نہ کریںبلکہ قوم کے محافظوں کوبھی جانی مالی تحفظ اور ذہنی سکون دیں۔

Malik Salman

Malik Salman

تحریر : ملک محمد سلمان
03008080566