تحریر: خنیس الرحمن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی ہو رہی ہو اور ہم عیش وعشرت اور آرام وسکوں کی زندگی بس کررہے ہوں ہر گز نہیں ایسے ہوسکتا ۔چودہ سو سال سے لیکر آج تک کتنے ہی ایسے محب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف بکواس کرنے والے گستاخوں کو ٹھکانے لگایا اور کتنے ہی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ مکہ کایہودی کعب بن اشرف نبی آخر الزماں کے خلاف بکواس کیا کرتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف اتنا آگے بڑھ گیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی میں صحابہؓ کی مجلس میں اعلان کیا کہ کون ہے جو اس ملعون کو ٹھکانے لگائے گا۔ ابو نائلہ اور ابو سلمہ اٹھتے ہیں اور لبیک کہتے ہیں ۔دو تین دن کے اندر اندر کعب بن اشرف کا سر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زباں مبارک سے ان کے لئے دعا نکلتی ہے اور خوش نصیب چہروں کی بشارت ملتی ہے۔
جب ابن خطل مرتد ہوجاتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کیخلاف بکواس کرتا ہے۔گانے والی لونڈیوں سے نبی اکرم ﷺ کیخلاف گستاخ آمیز کلمات کہلواتا ہے۔سیدنا زبیرؓ اٹھتے ہیں جو اپنے حضور ﷺ کیخلاف گستاخ آمیز کلمات کو مزید سننا گوارا نہیں کرسکتے تھے اور کعبہ کے خلاف سے لٹکنے والے اس مرتد گستاخ کو جہنم واصل کردیتے ہیں۔
جب خیبر کا باسی ابو رافع اٹھ کھڑا ہوتا ۔نبی ﷺ کیخلاف نازیبا کلمات کہنے میں آگے آگے ہوتا ہے ۔مشرکین مکہ کا ساتھ دیتا ہے ۔دوسری طرف سے سیدنا عبداللہ بن عتیکؓ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس بدبخت پر وار کرکے جہنم واصل کردیتے ہیں۔نبی ﷺ کی گستاخی تو نابینا صحابیؓ بھی برداشت نہ کرسکا اور نیزہ اٹھا کر رات کے اندھیرے میں اسے انجام تلک پہنچا دیتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد جب مسیلمہ کذاب نبوت کا دعوہ کرتا ہے ہزاروں صحابہ اپنے نبی ﷺ کے دفاع کے لئے لشکر لے کر نکلتے ہیں ۔مسیلمہ کے سپاھیوں اور ناموس رسالت ﷺ کے فدائین کے درمیان معرکہ ہوتا ہے ۔اس معرکہ میں مسیلمہ کذاب جہنم واصل ہو جاتا ہے ۔بیشتر صحابہؓ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر رب کی جنتوں کے مہمان بن جاتے ہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے عہد میں حدیث کی مسند پر بیٹھنے والو ں کو جہاں قلم پکڑنا سکھایا جاتا تھا وہیں تلوار پکڑنی بھی سکھائی جاتی ۔جب نبی ﷺ کیخلاف گستاخان رسول ﷺ نے سر اٹھا یا تو علم حدیث کے ہزاروں طالبان کو لیکر گستاخان پر حملہ آور ہوئے اور انہیں واصل جہنم کیا۔
جب صلیبیوں کے خلاف میدان مقتل سجتا ہے ۔صلیبی ریجنالڈ اٹھتا ہے اور نبی ﷺ کیخلاف بکواس کرتا ہے اور کعبۃ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کو ڈھانے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔یہ سب سن کر سلطان کی غیرت جاگ جاتی ہے اور قسم کھا کر کہتا ہے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک ریجنالڈ کو اپنے ہاتھوں واصل جہنم نہ کردوں ۔تیسری صلیبی جنگ لگ چکی تھی ۔اس جنگ میں بدبخت ریجنالڈ بھی موجود تھا ۔پچیس ہزار مجاہدین کا لشکر صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں فاتح بننے جا رہا تھا ۔خوب تلواریں ٹکرائیں ۔لاشیں گریں ۔مسلمان بیت المقدس کے فاتح بن گئے ۔اب سب قیدیوں کو لایا گیا ۔جن میں ریجنالڈ بھی موجو د تھا ۔سلطان نے ریجنالڈ کو بلایا اور اس بدبخت سے کہا ’’اب میری قسم پوری ہونے کا وقت آگیا ہے ‘‘ ۔کچھ ہی لمحوں میں اس کی گردن کو سرتن سے جدا کر دیا۔
جب برصغیر میں نعوذ باللہ رنگیلا رسول کے نام سے راجپال نامی شخص گستاخانہ کتاب لکھتا ہے تو برصغیر کے مسلمانوں میں نبی ﷺ کی گستاخی لینے کی تڑپ اٹھتی ہے۔لاہور کے ایک نوجوان کا گزر ایک جگہ سے ہوتا ہے جہاں تحریک ختم نبوت کا جلسہ جاری ہوتا ہے اس کے کان میں جب یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں کہ ایک ہندو نے ہمارے پیارے پغمبر کی گستاخی کی ہے ۔کباڑیے سے چاقو خریدتا ہے اور سیدھا راجپال کے پبلشر پر پہنچ کر اس کے پیٹ میں وار کرکے اس کو جہنم واصل کردیتا ہے ۔اس کے بعد اس نوجوان کو راجپال کے قتل کے جرم میں گرفتار کرتے پھانسی کی سزاسنا دی جاتی ہے ۔اس نوجوان کو غازی علم دین شہید کے نام سے جانا جاتا ہے۔
Justice Shaukat Aziz Siddiqi
2006 ء میں وزیر آباد سے تعلق رکھنے والا نوجوان طالبعلم عامر عبد الرحمن چیمہ شہید اٹھتا ہے ۔جو جرمنی میں ٹیکسٹائل مینجمنٹ کا طالبعلم تھا ۔تین سمسٹر مکمل کرچکا تھا ۔ایک روز جب اس نے جرمنی و ڈنمارک اخبارات میں نبیﷺ کے خاکے دیکھے تو اس کی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر کو جہنم واصل کرنے کی ٹھان لی ۔ مقامی دوکان سے چاقو خریدتا ہے اور سیدھا جا کر اخبار کے چیف ایڈیٹر پر وار کرتا ہے اور عامر عبدالرحمن کو موقع پر جرمنی کی پولیس گرفتار کرلیتی ہے۔جرمنی کی پولیس،افواج ،ایجنسیز عامر عبدالرحمن پر وحشیانہ تشدد کرکے اسے یہ اگلوانا چاہتے تھے کہ اس کا تعق القاعدہ یا کسی انتہاپسند تنظیم سے تعلق ہے لیکن عمار عبدالرحمن یہی کہتا رہا میں نے بحثیت مسلمان عاشق رسول ﷺ ہونے کے ناطے اس بدبخت کو انجام تلک پہنچایا ۔آخر کر جرمنی کے حساس اداروں کا وحشیانہ تشدد عامر عبدالرحمن برداشت نہ کرسکا اور داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ۔عامر عبدالرحمن کو لوکھوں عاشقان رسول کی موجودگی میں سپردخاک کر دیا۔
آج امریکہ کے اندر ٹیری جونز جیسے دہشت گرد قرآن کے اوراق کو جلاتے ہیں ،گوانتا نومو کی جیلوں موجود بیت الخلاء میں ٹشو کی بجائے نعوذ باللہ قرآن مجید کے اوراق مہیا کیے جاتے ہیں ۔کہیں سلمان رشدی اور نسرین جیسے بدبخت اللہ کے نبی کی گستاخیاں کرتے رہے اور اخبارات میں کارٹونز بنانے کا سلسلہ رکا نہیں جرمنی ،ڈنمارک کے اخبارات چارلی ہیبڈو کی صور ت میں خاکے بناتے رہے لیکن کسی کو عامر عبدالرحمن کا کردار ادا کرنے کی جرات نہ ہوسکی ۔کہیں اسرائیل اور انڈیا میں اللہ کے نبی ﷺ کی گستاخیاں کی گئیں۔ہم جہاد القتال نہیں کرسکتے تو جہاد بالقلم کا حق تو ادا کرسکتے تھے ۔جہاد باللسان کا حق تو ادا کرسکتے تھے ۔اپنے قلم کے ذریعے ،اپنی زبان کے ذریعے ویڈیو پیغامات بنا کر ان کو سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ پھیلا کر حق ادا کرسکتے تھے ۔لیکن افسوس کے ہم نہ کرسکے اور یہ کام مولویوں کے لئے چھوڑ دیا ۔دینی جماعتوں کے لئے چھوڑ دیا مجھے یاد ہے اس موقع پر جب امریکہ میں اللہ کے نبی ﷺ کی فلم بنائی گئی پوری پاکستانی قوم سڑکوں پر آگئی اور عبداللہ بن عتیکؓ ،ابو سلمہ و نائلہؓ کی طرح عاشق رسول ﷺ ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔لیکن ایک بار پھر ابن تیمیہ اور صلاح الدین ایوبی کی طرح عاشق رسول ﷺ بننے کا وقت ہے۔
پاکستان کے اندر بیٹھے بلاگرز اور قادیانی سلمان حیدر اور عاصمہ جہانگیر صورت میں لبرل ازم کو فروغ دینے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اگر کوئی ان کے خلاف ایکشن لے تو اس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔پاکستان کے اندر جب عشق مشوقی کے عالمی دن ویلنٹائن ڈے پر پابندی کیخلاف ہائیکورٹ میں درخواست دائر کروائی جاتی ہے اور ویلنٹائن ڈے پر پابندی لگائی جاتی ہے اور عاصمہ جہانگیر اس کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس شوکت عزیز سے کہتی ہے کہ اس کو تو مسجد میں ہونا چاہیے تھا۔
اس کے بعد جب سوشل میڈیا پر بھینسا ،موچی وغیرہ نام سے پیجز چلانے والے اللہ کے نبی ﷺ کے خلاف گستاخیاں کرتے ہیں اس صورت میں ہائیکورٹ اسلام آباد کا جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی میدان میں آکر صلاح الدین ایوبی اور علم دین کا کردار ادا کرتا ہے اور صاف کہتا ہے کہ نبی ﷺ کی گستاخی کرنے والے مسیلمہ کذاب کے فرزند دہشت گرد ہیں لیکن کون مانیں لوگوں کی نظر میں دہشت گرد ٹوپیوں اور داڑھی والے اور قال قال رسول کہنے والے ہیں نا کہ وہ جو ملک پاکستان جس کی بنیا لاالہ الا اللہ پر بنامیں رہ محمد رسول اللہ ﷺ کیخلاف سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد اپڈیٹ کرتا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز تو حکومت کے اوپر برس پڑے اور ان سے مطالبہ کرنے لگے حکومت اگر سوشل میڈیا سے مواد ہٹانے میں کوشش نہیں کرسکتی اور پی ٹی اے تعاون نہیں کرسکتی تو سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے ۔لیکن بار پھر عاصمہ جہانگیر شوکت عزیز کو کہتی ہے کہ اس کو تو مسجد میں ہونا چاہیے تھا اس مولوی کا عدالت عظمی میں کیا کام اور اس کیس کے وکیل پر حملہ کرتی ہے اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتی ہے ۔جسٹس شوکت عزیز کی برائیاں ایک طرف اور اللہ کے نبی ﷺ سے محبت ایک طرف مجھے بتلائیے سوشل میڈیا پر بیٹھ یہ کہنے والے دانشور کہ جسٹس شوکت عزیز نے دکھاوے کے لئے سب کچھ کیا ہے میں ان سے پوچھتا ہوں کیا تم نے جسٹس شوکت عزیز کا دل چیڑ کر دیکھا ہے کہ اس نے دکھاوے یا اللہ کی رضاء کے لئے سب کچھ کیا ہے۔آپ کو وہ موقع تو یاد ہوگا جب عہد رسالت ﷺ میں اسامہ بن زیدؓ نے ایک شخص کو اس قتل کردیا جب اس نے دیکھا کے تلوار قریب اور اس نے کلمہ پڑھ لیا ۔اللہ کے نبی ﷺ اسامہؓ سے کہا اے اسامہ کیا تم نے اس کا دل چیڑ کر دیکھا ہے کہ اس نے تلوار کہ ڈر سے کلمہ پڑھا ہے۔
ہم شوکت عزیر صدیقی کے اس ایکشن پر ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں انہوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کرنبی ﷺ کی گستاخیاں کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا ۔مجھے نہیں امید کے پی ٹی اے گستاخانہ مواد کو سوشل میڈیا سے ہٹائے گی ۔لوگ پہلے بھی سوشل میڈیا کے بغیر زندہ تھے اب بھی زندہ رہ سکتے ہیں ۔اس وجہ سے سوشل میڈیا پر پابندی عائد ہونی چاہیے ۔لاہور میں سول سوسائٹی کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں جسٹس شوکت عزیز کو محافظ رسول ﷺ قرار دیا گیا ۔لاہور گجرانوالہ ،اسلام آباد ،راولپنڈی ،گجرات ،کراچی سمیت ملک بھر میں جسٹس شوکت عزیز کے حق میں اور گستاخان رسول ﷺ کیخلاف احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ۔خدارا !ہم جہاد باللسان اور جہاد بالقلم کے ذریعے اپنا حق ادا کریں اور عاشق رسول ﷺ ہونے کا ثبوت دیں ۔اللہ گستاخان رسول ﷺ کو تباہ و برباد فرمائے اور محافظان رسول ﷺ کی حفاظت فرمائے۔آمین