اگست 1963 کو امریکہ کے دارلخلافہ میں ٹھاٹھے مارتا ہوا عوام کا سمندر جب واشنگٹن ڈی سی کا گھرائو کر چکا تھا تب پورے امریکہ میں ہر طرف خوف و ہراس کی لہر دوڑ چکی تھی یہ لوگ امریکہ کے سیاہ فام تھے جن کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے گوروںنے بھی کمر باندھ رکھی تھی اس مجمع کی تعداد تقریبََا تین لاکھ کے قریب تھی جب اس ٹھاٹھے مارتے ہوے عوامی سمندر نے واشنگٹن ڈی سی کے سامنے پڑاو ڈالا تو امریکہ میں سیاسی بحران جنم لینے لگا امریکہ میں طرح طرح کی افواہیں پھیلنے لگیں شائد صدر جان کینڈی استعفیٰ دے دیں گے ؟ نا جانے کیا ہونے والا ہے؟
لیکن دوسری طرف احتجاجی بڑے پر امن طریقہ سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے واشنگٹن ڈی سی کا گھرائو کر چکے تھے کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی کہ اس عوام کے سمندر نے کیسے خاموشی کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی پر چڑھائی کر دی ہے ایسا کیوں ، کیسے ،کس طرح ممکن ہوا تمام د نیا بشمول امریکہ کا میڈیا اس آزادی مارچ کے بارے میں مختلف قسم کی قیاس آرائیاں کر رہا تھاطرح طرح کے تبصرے اور تجزیے جاری تھے۔
اگست کے مہینہ میں ہونے والے اس آزادی مارچ کی تیاریاں بیس سال پہلے 1940 میں ہی کر لی گئی تھیں جس کا مقصد سیاہ فام امریکی باشندوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو ختم کروانا تھا سیاہ فاموں کو ہتک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، ان کو گورنمنٹ کی نوکریاں حاصل کرنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کے باعث انکی عزت مجروح کی جاتی تھی، انکو دفاعی اداروں میں حکومتی نوکریاں نہیں دی جاتی تھیں انکو کمتر اور گرا ہو تصور کیا جاتا تھا اس آزادی مارچ میں امیریکہ کے مشہور ترین گلوکاروں نے اپنی پرفارمس سے احتجاج کرنے والوں کو خوب محظوظ کیا تجزیہ کاروں کا کینا ہے۔
ہر طرف موسیقی کی محفلوں نے احتجاج کو انتہائی پر امن بنانے میں اہم کردار ادا کیا جیسا کہ ماہلیا جیکسن،مارین اینڈرسن،الینار روزوٹ ، فرینکلن ڈی روزوٹ،باب دائلان و دیگر گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوے اس ٹھاٹھے مارتے ہوئے عوام کے سمندر کو ایک نئی راہ کے سفر پر گامزن کرنے کیلئے ان کے جذبات کو آسمان تک لے گئے جس کا ایک ہی مقصد تھا سیاہ فاموں کو مکمل طور پر ائینی خود مختاری دی جائے جیسا کہ گوروں کو رنگ ونصب کے حوالہ سے حاصل ہے ہر کسی کو برابری کی بنیاد پر نوکری دی جائے رنگ و نسل کے غلیظ مفروضہ سے نکل کر شخصی آزادی دی جائے جو کہ ہر کسی کے وقار کی ضامن ہو۔
ایس مقصد کو پروان چڑھانے کیلئے راسٹن نے $1,6000 ڈالر کا ایک سائونڈ سسٹم لنکن میموریئل کے ارد گرد بنوایا تھا جو کہ حکومت کے ساتھ جھڑپوں میں توڑ دیا گیا تھا لیکن بعد میں مذاکرات کے ذریعہ یو ایس آرمی نے اسے ٹھیک کیا جس سے مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار بخوبی کھل کر اپنے اپنے انداز میںکیا جن میں رائے ولکنز،راسٹن،رینڈالف،جان لوئیس ، مارٹن لوتھر کنگ جونئیرکے علاوہ دیگر شامل تھے۔جب عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہو سمندر جوش اور جذبات کے ہر حد کو پار کرنے کیلئے تیار تھا تو ان کے رہنما مارٹن کنگ جونئر نے خطاب کیا۔
جس نے عوام کو یہ کہہ کو مخاطب کیا ! میرا ایک خواب ہے۔ جس کے بعد پرجوش تقریر کی جو کہ 16منٹ تک جاری رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی صدر جان ایف کینڈی آرڈر دینے پر مجبور ہوگئے اور آرڈر جاری کیا جس کے تحت عوام کے تمام مطالبات مان لیے گئے جس کے باعث سارا مجمع پر امن طریقہ سے منتشر ہونے پر مجبور ہوگیا نتیجہ میں امریکہ کو درپیش خطرہ ختم ہوا اور اس تحریک کے نتیجہ میں Civil Right Act اورVoting Right Actمعرضِ وجود میں آئے جو کہ عوام کا بنیادی اور آیئنی حق تھا۔
Pakistan
اب میں اس سارے واقع کو پاکستان کے موجودہ منطر سے منصوب کرنا چاہتاہوں عمران خان صاحب نے اپنے مارچ کا نام بھی اسی مارچ کے نام سے رکھا اور مہینہ بھی یہی چنا، پاکستان کا سب سے مہنگا اور مشہور سائو نڈ سسٹم بھی اسی مارچ کیلئے بک کیا، میوزیکل نایٹس اور میوزک کی بھرمار بھی کی ،اس کے علاوہ ناچ گا نا خوب ہلا گلا بھی کیا تاکہ واشنگٹن مارچ کی طرح ہی معاملات کو ظاہر کیا جائے ،حتیٰ کہ کنگ مارٹن کے الفاظ بھی اپنائے !میرا خواب ہے ! اور ملکِ پاکستان کے سب سے بڑے ادارے کا گھرائو بھی کیا یعنی سارا اسکرپٹ چوری کر لیا پر جس سے یہ ساری ہدایات لیں تھیں اس سے صرف اسکرپٹ میں یہ تبدیلی کروا لی کہ مطالبات عوام کے نہیں بلکہ عمران خان کے ذاتی ہونگے جو کہ غیر آیئنی ،غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی ہونگے۔
خان صاحب کی ساری حرکات و سکنات پہلے دن ہی سے بالکل تشویش کا باعث ہیںآخرکار خان صاحب کا سارا طریقہ کار فیل ہوتا ہو دکھائی دیتا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ خان صاحب اس ملک کی خدمت کرنے میں نہیں بلکہ اس ملک پر راج کرنے کیلئے ہا تھ پائوں مار رہے ہیں جیسا کہ ان کو بیرونی ہتھکنڈے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں بظاہر جس طرح امریکہ اس بات کو بار بار بیان کرتا ہے کہ اس آزادی مارچ کی باریک بینی سے نگرانی کر ہے ہیں یہ ساری کڑیاں شائد اسی سے جا ملتی ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں جنتا زیادہ انتشار ہوگا اس کا فائدہ ہمارے دشمن ممالک کے دوستوں کو ہوگا لیکن اس خان صاحب نے اپنی ضد نہ چھوڑی اور غلطی یہ ہوگئی۔ اسکرپٹ میں تبدیلی کروائی اور اوپر سے اس دفعہ اسکرپٹ رائٹر نے بھی زندگی کا سب سے بڑا بلنڈرمار دیا کہ خان صاحب کی باتوں میں آکر سارے اسکرپٹ کا ستیا ناس کر ڈالا کیونکہ اس اسکرپٹ رائٹر کا آج تک کوئی چھوٹے سے چھوٹا ڈرامہ بھی ناکام نہیں ہو تو یہ سپر ہٹ فلم تھی جس پر کھربوں کی سرمایہ کاری کی گئی تھی جس کا ثبوت غیر ممالک سے مہمان اداکار اور ملک کے مشہور ترین سیاسی اداکار تھے جنہوں نے پہلے بھی اس رایٹر اور ہدایت کار کے کئی کامیاب شاہکار فلموں میں کام سرانجام دیا ہے بلکہ کئی معاملات کو اس ہدایتکار کی مرضی سے بخوبی مکمل کیا جس کا مقصد پاکستان کی عام عوام کا خون بہا نا اور ملک کو بدنام کرنا تھا۔
خان صاحب کاش عام عوام کا سوچتے غربا کیلئے کوئی قدم اٹھاتے تاکہ مارچ کے خاتمے کے بعد ان کوتنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے جیسا کہ ناچ گانے اور عیاش پرست ٹولے کو خوش کرنے کی بجائے ملک کے انتیائی پسے ہوئی طبقے کیلئے کوئی اچھی پیش رفت کرتے تا کہ اگلی دفعہ جب بھی کوئی لانگ مارچ یا آزادی مارچ کی چھوٹی سی کال دیتا تو خان صاحب کی اس آواز پر ہر پاکستانی لبیک کہتا اور انکی حمایت کرتا نہ کہ انکو مشکوک نظروں سے دیکھتاجو آج کل ہو رہا ہے۔