حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معائدے کے بعد دھرنا ختم ہو گیا ہے جس پر عوام نے سکھ کا سانس لیا ہے اور زندگی معمول پر آگئی ہے اب حکومت تشدد اور توڑ پھوڑ کی کاروائیوں میں ملوث عناصر کیخلاف باقاعدہ مقدمات قائم کرکے ان کے خلاف قانونی کاروائیاں کررہی ہے تخریبی کاروائیاں کرنے والے عناصر کیخلاف کاروائی بہت اچھا قدم ہے ایسے لوگوں کیخلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے اور انھیں قانون کیمطابق سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ احتجاج اور دھرنوں کی آڑ میں شہریوں پر تشدد،لوٹ ،مار کرنے، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا موقع نہ ملے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا، احتجاج کرنا ،مظاہرے کرنا اور دھرنا دینا اپوزیشن کا جمہوری حق ہوتا ہے پاکستان میں پہلا قابل ذکر دھرنا محترمہ بینظیربھٹو کی حکومت کیخلاف قاضی حسین احمد کی زیرقیادت جماعت اسلامی کی طرف سے 1996ء میں دیا گیا تھا۔موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی الیکشن میں دھاندلی پر مسلم لیگ ن کی حکومت کیخلاف 2014ء میں دھرنا دیا تھا یہ ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا قرار دیا جاتا ہے جو 126 دن تک جاری رہا تھااور سولہ دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کا المناک سانحہ رونما ہونے کی بناء پر ختم کردیا گیا تھا۔
تیسرا بڑا دھرنا تحریک لبیک نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی طرف سے ختم نبوتۖ کے قانون میں ترمیم کرنے کی کوشش کیخلاف دیا تھا اس دھرنے کے نتیجے میں پورے ملک میں نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا تھا آخرکار آرمی چیف کی کوششوں سے ایک معائدے کے تحت پرامن طور پر یہ دھرنا ختم کردیا گیایہ تینوں دھرنے حکومت کیخلاف دئیے گئے تھے گزشتہ دنوں بھی تحریک لبیک کی طرف سے ایک دھرنا دیا گیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا دھر ناتھا جو سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کیخلاف دیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ایک عیسائی عورت عاسیہ بی بی کو توہین رسالتۖ کے مقدمے سے بری کردیا تھاجس پر پوری امت مسلمہ میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ آپ رحمت العالمین، خاتم النبینۖ پر ایمان ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور کوئی مسلمان آپ نبی کریمۖ کی توہین کا سوچ سکتا ہے اور نہ ہی برداشت کرسکتا ہے پاکستان کے قانون میں توہین رسالتۖ پر سزائے موت کی سزا مقرر ہے۔
عاسیہ بی بی پر توہین رسالت ۖ کا الزام تھا جس پر اس کے کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اسے ہائیکورٹ نے سزائے موت کا حکم دیا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس پر سپریم کورٹ نے باقاعدہ سماعت کے بعد عاسیہ بی بی کو توہین رسالتۖ کے مقدمے سے بری کردیا فیصلہ میں کہا گیا کہ عاسیہ بی بی پر توہین رسالتۖ کا الزام ثابت نہیں ہوتا اس فیصلے کیخلاف پورے ملک میں غصے کی ایک لہر پھیل گئی یہ فیصلہ غلط ہو سکتا ہے جس کیخلاف قانونی راستہ اختیار کرکے یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ عاسیہ بی بی توہین رسالتۖ کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے سزائے موت دینی چاہیے اس کے لیے قانونی ماہرین اور علمائے کرام کو عدالت میں باقاعدہ آئینی اور قانونی طریقے سے فریق بننا چاہیے تھا تاکہ اگر عاسیہ بی بی توہین رسالتۖ کی مرتکب ہوئی تھی تو اسے سزائے موت د ی جاتی او ر اگراس پر توہین رسالتۖ کا الزام ثابت نہیں ہوتا تو عدالت کو غلط الزام لگانے والوںکیخلاف قانون کیمطابق کاروائی کرنی چاہیے تھی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے کیونکہ پاکستان ایک آزاد اسلامی اور جمہوری ملک ہے جہاں قانون اور کی حکمرانی ہے اور الحمدوللہ ہمارا آئین اور قوانین قران و حدیث کے تابع ہیں جس کے تحت کسی بھی قسم کے تنازعات، جھگڑوں،الزامات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کا قانونی اختیار عدالتوں کو حاصل ہے جہاں جج صاحبان شواہد،گواہیوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں یہ فیصلے غلط اور صیح بھی ہوتے ہیں۔
ان فیصلوں کیخلاف قانونی راستے بھی موجود ہیں جن پر عملدرآمد کے ذریعے فیصلے تبدیل بھی ہوتے ہیں لیکن حتمی طور پر تمام تر فیصلے کرنے کا اختیارعدلیہ کے پاس ہی ہوتا ہے جس پر فریقین کو اعتماد کرنا پڑتا ہے کیونکہ ججز کو اپنے فیصلوں کی جوابدہی قانون اور ضمیر کوکرنے کے بعد سب سے بڑی اللہ کی عدالت میں بھی جواب دینا ہوتا ہے بحرحال اب چونکہ اس فیصلے کیخلاف ریویو کی اپیل دائر ہوچکی ہے معاملہ عدلیہ کے پاس ہے اس لیے اس پر کسی قسم کی رائے زنی کی جاسکتی اب عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے لیکن یہاں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مظاہروں، دھرنوں اور احتجاج کی آڑ میں کچھ شرپسند عناصر توڑپھوڑ اور جلائو گھیرائو کرتے ہیں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور شہریوں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔
ملک کا نظام درہم کردیتے ہیں کیا یہ جائز اور مناسب طریقہ کار ہے تو کوئی بھی شہری ان چیزوں کی حمایت نہیں کرے گااسی لیے اب موجودہ حکومت نے اس قسم کے دھرنے اور مظاہروںکی آڑ میں تشدد اور توڑ پھوڑ کرنے والوں کیخلاف مقدمات قائم کرکے انھیں گرفتار کرنے کی کاروائیواں کا آغاز کردیا ہے جس کے توڑپھوڑ اور تشدد کرنے والوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جو بہت مستقبل کے لیے ایک اچھا اقدم ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شرپسند عناصر ہڑتال، احتجاج اور دھرنوںکے دوران تخریبی عناصر تشدد اور توڑ پھوڑ کی کاروائیاں کرکے نہ صرف سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ شہریوں پر تشدد آمیز کاروائیاں کرکے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ورنہ تحریک لبیک سمیت کوئی بھی مذہبی اور سیاسی جماعت اپنے کارکنوں کوا یسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی اس لیے مستقبل قریب میں ایسی تشدد آمیز کاروائیوں اور نقصانات سے بچنے کے لیے چند دن پہلے والے دھرنے کے دوران پرتشدد کاروائیاں،لوٹ مار،اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف کاروائیوں کا آغاز کردیا گیاایسے لوگوں کو قانون کیمطابق سزائیں دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے حکومت کا یہ ا قدام قابل تعریف ہے جس کی سب مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو حمایت کرنی چاہیے تاکہ مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کی آڑ میں آئندہ پرتشدد،توڑپھوڑ اور لوٹ مار کے واقعات نہ ہو سکیں۔