احتجاج کی احتیاج یا فرض کی لاج

Young Doctors Protest

Young Doctors Protest

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
آج مسلسل چوتھا دن ہے جب قوم کے مسیحا اپنے بوریئے بستر سمیت لاہور کی مال روڈ پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ نرسوں نے بھی اپنے دھرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے ادھر اسپتالوں میں پنجاب بھر کے مریض ایک عذاب جیسی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ اب تک کافی زیادہ مریض ان ڈاکٹرز کے احتجاج کی بھینٹ چڑھ کر ملک عدم کو اپنا رخت سفر باندھ گئے ہیں۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ ینگ ڈاکٹرز آخر چاہتے کیا ہیں ان کے مطالبات ہیں کیا جو وہ حکومت وقت سے منوانا چاہتے ہیں ؟ دوسری طرف صاحبان اقتدار بھی اپنی مستی میں گم اس احتجاج کی جانب غور نہ کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں ان کی بلا سے کہ ڈا کٹرز اپنی ڈیوٹی پر ہیں یا نہیں ہیں نرسیں اپنا فریضہ انجام دے رہی ہیں یا نہیں لاہور کے اسپتالوں میں دور دراز سے آنے والے مریض آخر کس ناکردہ گناہ کی سزا کے طور پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں یا سسک سسک کر بلک بلک کر فریادیں کر رہے ہیں ان مریضوں اور ان کے لواحقین کا قصور کیا ہے جو صاحبان مسند اور مسیحان قوم ان کو اتنی بھیانک سزا دے رہے ہیں ۔حکمران ہیں تو ان کے سروں پر ابھی تک حکومت کو کس طرح بچانا ہے ،پانامہ کے معاملے سے کس طرح نکلنا ہے ،اپنے دھاندلی زدہ معزز ممبران کو کس طرح بیگناہ ثابت کرنا ہے اور خبر لیک ہوجانے کے مسئلے کو کیسی کمیٹی بنا کر ہینڈل کرنا ہے ،صرف ایسی باتیں سوار ہیں۔

دوسری طرف ڈاکٹرز ہیں جن کو اپنے مطالبات منوانے سے غرض ہے یہ وہی نوجوانان ملت ہیں جو ایف ایس سی اور انٹری ٹیسٹ کلئیر کرنے پر اپنے والدین اور قوم سے ایک عہد کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے اپنے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دے کر ملک و قوم کا نام روشن کرنے کا سبب بنیں گے ۔ ان کا کیا گیا وعدہ حکمرانوں سے نہیں ملک و قوم سے ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے تو پھر کیوں آج قوم کو انہی مسیحائوں کی وجہ سے مصیبتوں کا سامنا ہے۔

اگر اپنے مطالبات کے لئے کچھ کرنا ہے تو کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کرو جس سے حکومت وقت کو آپ کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ کار دکھائی نہ دے اور قوم بھی آپ کے حقوق کی جنگ میں آپ کا ساتھ دے اپنے فرائض سے فرار کا نام احتجاج نہیں آپ جس انداز کا اھتجاج کرنے بیٹھ گئے ہو ایسے احتجاج کا صاحبان اقتدار کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہونے والا ۔مطالبات آپ ان سے منوا نے کی ضد کر رہے ہو جو آپ سے علاج کی غرض سے کبھی کسی سرکاری اسپتال میں جانا اپنی توہیں سمجھتے ہیں ارے نوجوان مسیحائو یہ اقتدارئے تو زکام کی دوائی لینے بھی انگلستان یا امریکہ جاتے ہیں پندرہ روپے کی دوائی لینے کے لئے پچاس لاکھ لگا کر غیر پر بھروسہ کرنے والے تو آپ کو ذہنی طور پر ڈاکٹر ہی تسلیم نہیں کرتے وہ آپ کے مطالبات آخر کیوں مانیں آپ لو اسپتالوں کو چھوڑ کر انکو سزا تو مت دو جن کا خدا کے بعد فقط آپ سہارا ہو ،ان لوگوں کو بے سہارا تو نہ کرو جن کے تم حقیقی فرزند ہو ،الٹا آپ کا نقصان ہو گا یہ لوگ بزور طاقت بھی آپ کو روک سکتے ہیں یک جنبش قلم آپ کی نوکریوں کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔

Young Doctors

Young Doctors

آپ لوگ کوئی ایسا طریقہ کار اختیار کرو کہ اس قوم کی ہر ماں ، ہر بہن ، ہر جوان ،ہر بزرگ اور بچہ یک زبان ہو کر آپ کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر مجبور ہو جائے ۔وائی ڈی اے اور وائی این اے سے یہی بات کرنا چاہوں گا کہ اپنے آپ کو پہچانو اور حکومتی کوتاہیوں کی سزا قوم کو نہ دو ۔یہ قوم تو بے چاری پہلے ہی بہت سے مصائب سے دوچار ہے اسے اور تکلیف میں مبتلا نہ کرو اللہ پاک نے آپ کو دنیا میں ایک لازوال منصب سے نوازا ہے اس کے زوال کا سبب خود کو نہ بنائو بلکہ قوم کے لئے وہ کرو کہ قوم آپ کے لئے کچھ کرنے کے قابل ہو جائے آپ دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنا لافانی کردار نبھاتے رہو اور پھر دیکھ لیجیئے گا کہ ساری قوم آپ کی آواز کیسے بنتی ہے ہمارے حکمران اب احتجاجوں کے عادی ہو چکے ہیں ان پر ایسے دھرنے شرنے اثر نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ تو خود ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دھرنوں کو انجوائے کرتے ہیں۔

آپ دنیا بھر پہ ایک طائرانہ نگاہ دوڑا کر دیکھ لیں آپ کو تین شعبے بڑے مقدم ، محترم ،اور اعلی نظر آئیں گے جبکہ ہمارے ہاں وہی شعبے ایسے ہیں جیسے کسی جاگیر دار کے کامے ہوں وہ تین شعبے ہیں استاد ، ڈاکٹرز اور عدلیہ ہمارے ہاں یہی شعبے زیر عتاب رہتے ہیں یا پھر ایسے جیسے گھر کی باند ی ہوں۔کبھی یہاں کے استاد سڑکوں پر ہوتے ہیں کبھی عدلیہ زیر نگیں ہوتی ہے اور کبھی مسیحا اپنے کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ استاد سڑکوں پر آ بھی جائیں تو نقصان پاکستانی قوم کا ہو گا حکمرانوں کا نہیں ،کیونکہ ان کے بچے کونسا یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو استاد کا واویلا ان پر کوئی اثر کرے گا وہ نقصان تو یہاں کے باسیوں کا ہے۔

اگر ڈاکٹر کام چھوڑ دیں گے تو ان لوگوں کی صحت پر کیا اثر ؟ متاثر ہونگے بیچارے غریب لوگ اسی لیئے میں قوم کے بیٹوں(ڈاکٹرز ) سے اپیل کروں گا کہ ایسا احتجاج کرو جو قصر نشینوں پر اثر کرے احتجاج آپ کا حکمرانوں کے خلاف ہے اور متاثر بیچاری قوم ہو رہی ہے آپ کے ڈیوٹیوں پہ نہ بیٹھنے سے مر رہے ہیں ایڑیاں رگڑ کر تو قوم کے بزرگ خواتین اور بچے اقتداری ایوانوں میں سے کسی کی سانس نہیں رک رہی لہذا ان سے احتجاج کر کے اپنے گھر کے دشمن کیوں بن رہے ہو خدارا دکھی انسانیت کی خدمت کر کے امر ہونے کی سعی کرو نا کہ انسانیت کی تذلیل کا باعث بنو ۔یہ جو کام آپ مسیحا لوگ کر رہے ہو نا اس کا اجر ماسوائے اللہ عزوجل کے کوئی نہیں دے سکتا اور نہ ہی کسی کے بس کی بات ہے۔

اپنے فرض کی لاج رکھو کیونکہ آپ کا شعبہ صرف نوکری نہیں بلکہ عبادت ہے اور عبادت کا صلہ حکمران نہیں کائنات کا حاکم اعلی عطا کرتا ہے ۔ ایک مسیحا کے سر پر مسیحائی کا تاج ہی بھلا لگتا ہے نا کہ پیشانی پر انسانیت کے قاتل ہونے کا دھبہ معزز ڈاکٹر صاحبان آپ کا شعبہ فرض عبادت کا درجہ رکھتا ہے سنتی یا نفلی عبادت کا نہیں اور فرض کا تارک مالک کائینات کی نظر میں کیا ہے آپ پرھے لکھے باشعور لوگ ہو بہت اچھی طرح جانتے ہو آپ سے ایک ہی اپیل کروں گا فوری طور پر اپنا احتجاج ختم کرکے حکمرانوں کو نہیں اپنے خالق اور اس کی مخلوق کی خوشنودی حاسل کرو ۔ لہذا اپ کو احتجاج کی احتیاج نہیں اپنے فرض کی لاج کے لیئے کام کرنا ہے۔

 Dr M H Babar

Dr M H Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail ;[email protected]