تحریر : پروفیسر رفعت مظہر خیال تو یہی تھا کہ دھرنا ون کی طرح دھرنا 2 بھی ”کھڑکی توڑ” ہو گا لیکن وہ تو بالکل ہی پھسپھسا نکلاجس کا ہمیں ”کَکھ” مزہ نہیں آیا۔ سونامیوں کے اگر کچھ ہاتھ آیا تو صرف ” پھَینٹی ”یا پھر تھوک کے حساب سے آنسو گیس، جس ”ٹُٹ پَینی” نے اُنہیںرُلا رُلا کے بے حال کر دیا۔ یہ بھلا کہاں کی انسانیت ہے کہ حکمرانوں نے ہمارے ننھے مُنّے ”تیلی پہلوان” کو بھی نہیں بخشااور وہ روتے کرلاتے خیبرپختونخوا بھاگ گئے ۔ بچوں اور بوڑھوں پہ تو ہر کوئی رحم کھاتا ہے لیکن نوازلیگ کے ہاں تو رحم نام کی کوئی شے دستیاب ہی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب وزیرِ داخلہ چودھری نثارعلی کا کیا دھرا ہے جنہوں نے گھیر گھار کے سونامیوں کو پھینٹی لگوائی اور بعد میں پولیس اور ایف سی کے ساتھ جشن مناتے نظر آئے۔
اسی لیے ہمارے تیلی پہلوان نے انتہائی دکھ کے عالم میں کہاکہ ایف سی تو پختونوں پر مشتمل تھی لیکن اس نے بھی اپنے پختون بھائیوں کو پھینٹی لگا دی۔ بات تو واقعی سوچنے کی ہے کہ ہمارے وزیرِ داخلہ نے چکر چلا کے پختونوں کو پختونوں سے لڑا دیا اور پھر اُنہیں انعام و اکرام سے بھی نوازتے رہے۔ ہمارے کپتان ہیں بہت بھولے بادشاہ ، اسی لیے تو ایک سینئر لکھاری جو کسی زمانے میں کپتان صاحب کو ”قائدِ اعظم ثانی” قرار دیا کرتے تھے ، آجکل جابجا یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ کپتان کو سیاست بالکل نہیں آتی۔ دراصل کپتان اپنے اُس دوست سے مار کھا گئے جس سے اُن کی دوستی کا رشتہ گزشتہ پینتالیس سالوں سے چلا آ رہا تھا۔ نام اُن کا ہے۔
چودھری نثار علی خاں، جنہوں نے 2014ء کے دھرنے میں خاں صاحب کو اِس شرط پر اسلام آباد آنے کی اجازت دی کہ وہ ڈی چوک سے آگے نہیں جائیں گے۔ ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ” کے مصداق کپتان نے اپنے وعدے کا بھرم نہ رکھا اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ اُس وقت اُن کے ”سیاسی کزن” علامہ طاہرالقادری بھی اُن کے ساتھ تھے ۔ علّامہ صاحب کا وہ دھرنا 2 تھا جبکہ خاں صاحب کا دھرنا وَن۔ پھر وہ دھماچوکڑی مچی کہ ڈی چوک ہی نہیں ، شاہراہِ دستور بھی آثارِ قدیمہ کا سا نقشہ پیش کرنے لگی۔ فُٹ پاتھوں کی اینٹیں تک اکھاڑ لی گئیں، درخت جلا دیئے گئے ،پھولوں کی کیاریوں میں غلاظتوں کے ڈھیر لگ گئے۔
Parliament House
وزیرِ اعظم ہاؤس بند رہا، پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں احتجاجیوں کے ڈیرے رہے، پی ٹی وی پر قبضہ کیا گیا، ایک نیوز چینل پر ہر روز پتھراؤ ہوتا رہا اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر بچوں کے ”پوتڑے” اپنی بہار دکھاتے رہے ۔ اِتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی وزیرِداخلہ ” ٹُک ٹُک دیدم ، دَم نہ کشیدم” کی عملی تصویر بنے رہے۔ جس امپائر کی تلاش میں خاں صاحب اور علامہ صاحب نکلے تھے وہ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گیا علامہ صاحب نے تو مایوس ہو کر اپنا دھرنا سمیٹ لیا (حالانکہ مایوسی کفر ہے) لیکن کپتان صاحب ڈٹے رہے اگر 126 روز کے بعد اُنہیں سانحہ اے پی ایس پشاور کا بہانہ نہ ملتا تو شاید وہ ابھی تک ڈی چوک میں ہی پائے جاتے اور دھرنا 2 کی نوبت ہی نہ آتی ۔ یہ بھی طے کہ اگر امپائر کی اُنگلی کھڑی ہو جاتی توآج نقشہ کچھ اورہوتا۔
کپتان نے یقیناََ سوچا ہو گا کہ جب دھرنا ۔وَن میں اُن کے” بَیلی” نے اتنا ساتھ نبھایا تو اب کی بار بھی وہ ایسا ہی کرے گالیکن اُس وقت ” اندرکھاتے” معاملہ کچھ اور تھا۔ 2014ء میں بھی ”دھرنا۔وَن” کے موقع پرچودھری نثار علی خاں احتجاجیوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا چاہتے تھے لیکن میاں صاحب نے اُنہیں سختی سے منع کر دیا۔ اب کی بارچودھری صاحب نے میاں نواز شریف کو قائل کر لیا ہو گا کہ” لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ”۔ دروغ بَر گردنِ راوی چودھری صاحب نے تو میاں صاحب کو اپنے ”بیلی” میاں شہباز شریف کے انداز میں لہک لہک کر یہ شعر بھی سنایا کہ پکڑ کے زندہ ہی جس درندے کو تم سدھانے کی سوچتے ہو بدل سکے گا نہ سیدھے ہاتھوں وہ اپنے انداز دیکھ لینا میاں نواز شریف قائل ہو گئے اور تحریک ِ انصاف کا دھرنا 2 ٹائیں ٹائیں فِش ۔ ”آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے” جیسی صورتِ حال ہو گئی اور میوزیکل کنسرٹ کے شوقین سونامیوں نے آنسو گیس کے ہاتھوں روتے روتے گھروں کی طرف ”دُڑکی ” لگا دی۔
اللہ بھلا کرے سپریم کورٹ کا جس نے یکم نومبر کو پاناما پیپرز پر تحقیقاتی کمیشن بنانے اور ٹی او آر خود تشکیل دینے کا اعلان کر دیا اور خاںصاحب کے ہاتھ دھرنا ختم کرنے کا بہانہ آ گیا۔ حقیقت یہی ہے کہ راولپنڈی میں تحریکِ انصاف کے ”یوتھ کنونشن” کے موقعے پر چودھری نثار علی کے ”پھینٹی” پروگرام نے سارے سونامیوں کو بَد دِل کر دیاکیونکہ اُنہوں نے تو ایسا سلوک کبھی دیکھا نہ سُنا۔ ہم نے سنا تھا کہ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کم از کم دو لاکھ پختون ساتھ لے کر آرہے ہیں لیکن جب وہ صوابی انٹر چینج پر پہنچے تو اُن کے قافلے میںلَگ بھگ چار ہزار لوگ تھے اور برہان انٹر چینج تک پہنچتے پہنچتے یہ قافلہ ڈیڑھ ہزار تک محدود ہو کر رہ گیا۔ وجہ اُس کی یہ تھی کہ پورے راستے میں سونامیے تو پولیس اور ایف سی کا مقابلہ کرتے رہے لیکن خٹک صاحب اپنی گاڑی میں محوِاستراحت۔
Supreme Court
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کپتان صاحب نے دھرنا 2 کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اب 2 نومبر کو پورے ملک سے 10 لاکھ افراد پریڈ گراؤنڈ میں یومِ تشکر منائیں گے۔ ہمارا ماتھا تو اُسی وقت ٹھنکا کیوںکہ ہم کئی بار پریڈ گراؤنڈ دیکھ چکے ہیں جس کی کل گنجائش تیس ،چالیس ہزار سے زیادہ نہیں، پھر بھلا اُس میں دَس لاکھ لوگ کیسے سماتے۔ یکم نومبر کو ہی پریڈ گراؤنڈ میں یومِ تشکر منانے کی دھڑادھڑتیاریاں ہونے لگیں۔ ایک تو ہمارا یہ الیکٹرانک میڈیا (نیوزچینلز) بڑا شرارتی ہو گیا ہے۔ نیوزچینلز کے کیمروں نے کرسیوں کی تعداد کو فوکس کر لیا۔ یہ تعداد کُل پانچ ہزار تھی، تب ہمیں پتہ چلا کہ کپتان صاحب کو بھی یقین ہو چلا ہے کہ سونامیوں کی غالب اکثریت اب گھروں سے نہیں نکلے گی۔
جلسے کا وقت 2 بجے دوپہر مقرر تھا لیکن اُس وقت تک تو ”ٹانواں ٹانواں” سونامیہ بھی میسر نہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے سونامیے بھی اپنے کپتان صاحب کو” چونا”لگا گئے۔ پھر فیصلہ ہوا کہ رات کے اندھیرے کا انتظار کیا جائے تاکہ کچھ تو بھرم رہ جائے ۔ یومِ تشکر میں تعداد خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ یہ تعداد کپتان کے کیے گئے پچھلے تمام جلسوں سے کہیں کم تھی اور اتنی بھی نہیں تھی کہ اُسے دیکھ کر کوئی ”بڑھک” ہی لگائی جا سکے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ تمام مقررین نے عالمِ غیض میں انتہائی غیر پارلیمانی زبان استعمال کی۔ ہمارے کپتان طویل تقریر کے موڈ میں تھے لیکن جب مجمع آہستہ اہستہ کھسکنے لگا تو کپتان کو اپنی تقریر مختصر کرنی پڑی۔بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ دھرنا 2 نامی شو مکمل طور پر فلاپ ہو گیا۔ سونامیے پریشان ہیں کہ کپتان صاحب کے اعلان کے مطابق اب کوئی دھرنا ہو گا نہ جلسہ جلوس ۔ اگر واقعی ایسا ہو گیا تو پھر اُن کا میوزیکل کنسرٹ تو ختم ۔کچھ سونامیے یہ کہتے بھی پائے گئے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ کپتان صاحب ”یوٹَرن” کے بادشاہ ہیں۔