تحریک ِ انصاف کی نومولود حکومت کو 9 ماہ میں بہت سے بحرانوں نے اپنی لپیٹ میں لئے رکھا ان میں زیادہ تر بحران شکست خوردہ اور مایوس سیاستدانوں کے پیداکردہ تھے سب سے بڑا بحران ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ تھا جس نے حکومت اور عوام کو ہلاکررکھ دیا جس کے نتیجہ میں کئی وزرا ء فارغ کرنا پڑے کچھ از خو مستعفی ہوگئے اب تبدیلی سرکار کے خلاف ایک اور بحران بڑی شد اور مد سے اٹھارہاہے یہ بحران اعلی ٰ عدلیہ کے دو فاضل ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس کے باعث جنم لے رہا ہے حکومت مخالف جماعتیں اور سیاستدان اسے افتخار چوہدری بحالی تحریک جیسا بنانا چاہتے ہیں لیکن اس جیسا ماحول بنتا نظرنہیں آرہاکیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کے حالات وواقعات بالکل مختلف ہیں وزیر اعظم کے دفتر کے اثاثہ وصولی یونٹ (اے آر یو) نے ایک مشترکہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی برطانیہ میں رجسٹرڈ جائیدادوں کی مصدقہ نقول موصول ہوگئیں ہیں جن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا مذکورہ نقول لندن سے نوٹرائزڈ ہیں جنہیں برطانیہ میں موجود ہائی کمیشن سے باقاعدہ طور پر تصدیق کروایا گیا۔
اس حوالے سے بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا موثر نظام قائم کرنے کی شدید ضرورت ہے جہاں پاکستانیوں کے بیرونِ ملک موجود اثاثوں کی نشاندہی اور اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اس پس منظر میں اے آر یو کو تین ججز کی غیر ملکی جائیدادوں سے متعلق معلومات موصول ہوئیں، وزارت قانون و انصاف کے زیرِ سایہ ججز سے متعلق معاملات کے رول آف بزنس 1973 کے تحت یہ شکایات/ معلومات مناسب کارروائی کیلئے وزارت کے سامنے پیش کی گئیںجس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ کارروائی صرف اس صورت میں کی جائے گی جب تصدیق ہوجائے۔ اس لیے اے آر یو نے تصدیق کا عمل شروع کیا اور متعلقہ اثاثوں میں رجسٹرڈ زمین کی مصدقہ نقول حاصل کیں۔ ‘تمام معلومات/ شکایات موصول ہونے پر اے آر یو، اٹارنی جنرل پاکستان، وزارت قانون و انصاف، وزیراعظم اور صدر مملکت نے اسے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کیا’۔ قبل ازیں وزارت قانون نے وضاحت کی تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس سے کسی جج کے اثاثہ جات کی چھان بین کی جاسکے اس لیے اس پر ملک کے بہترین مفاد میں اے آر یو اور ایف بی آر کے ذریعے عمل کرنا ضروری تھا۔ سینیٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ ظفر الحق نے ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قراردا پیش کرنے کی اجازت مانگی جس پر چیئرمین سینیٹ نے انہیں اجازت دے دی۔قرارداد میں کہا گیاہیکہ ججز کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے پر ایوان تشویش کا اظہار کرتا ہے، یہ ریفرنس عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، ایوان عدلیہ کے معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔
راجہ ظفر الحق کی قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت معزز ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے۔قرارداد میں مزید کہا گیاہیکہ ریفرنس خفیہ انداز میں دائر کیا گیا جس سے متعلق ججز کو علم نہیں تھا، ریفرنس دائر کرنے پرشدید تنقید ہورہی ہے اور بار میں تقسیم نظر آئی ہے، شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ریفرنس معزز ججز کے حالیہ فیصلوں سے متعلق ہے، ایوان معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے، حکومت معزز ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے۔سینیٹ نے معزز ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرار داد منظور کرلی۔حکومتی ارکان نے قرارداد کی منظوری پر شدید احتجاج کیا جس کے بعد سینیٹ کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔سلم لیگ (ن) نے ججز کے خلاف حکومتی ریفرنسز پر پارلیمنٹ میں احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مشترکہ پارلیمانی ایڈوائزری گروپ کا اجلاس شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق کی مشترکہ صدارت میں حزب اختلاف کے چیمبر میں ہوا جس ایاز صادق، رانا تنویر، مریم اورنگزیب، مشاہد اللہ خان، راناثناء اللہ اور دیگر شریک ہوئے۔اجلاس میں اپوزیشن کی آئندہ کی حکمت عملی اور ججز کے خلاف حکومتی ریفرنسز پر غور کیا گیا۔مسلم لیگ (ن) نے ججز کے خلاف ریفرنسز پر پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ ریفرنسز عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے، عدلیہ پرکسی کو حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ریفرنسز کے خلاف اصولی مؤقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے احتجاج کا ہرآپشن استعمال کریں گے ۔حکومت کی جانب سے جن ججز کے خلاف ریفرنسز بھیجے گئے ان میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل ہیں اور تمام ججز پر اثاثے ظاہر نہ کرنے کر الزام عائد کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر بھرپور احتجاج کا اعلان کر دیا۔صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کے لیے 14 جون کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس نہیں لیا جاتا۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔ جبکہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ بھی کردیاہے۔حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔ دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے اور پاکستان بار کونسل نے اسی معاملے پر اہم ہنگامی اجلاس میں کئی فیصلے بھی کرلئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو دو خط بھی لکھے جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔بہرحال مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی ،جے یو آئی ایف سمیت کئی جماعتوں کی حمایت کے باوجودان ریفرنس کی بنیادپر چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ کچھ حلقے اس بارے میں بالکل بھی پر امید نہیں ہیں آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟