متحدہ قومی موومنٹ کا جاری دھرنا نمائش چورنگی آج چوتھے روز میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ دھرنا قائد ایم کیو ایم سے اظہارِ محبت اور اظہارِ یکجہتی کے لئے دیا گیا ہے۔ اس دھرنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً یہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے قافلے بھی پہنچ رہے ہیں اور وہ بھی اس دھرنے میں کچھ دیر کے لئے شامل ہو کر الطاف حسین اور کارکنان سے اظہارِ محبت کر رہے ہیں۔ رحمٰن ملک سابق وفاقی وزیر داخلہ، جام مدد علی، وزیر تعلیم سندھ نثار کھوڑو ، عتیق میر، سراج قاسم تیلی اور سب سے بڑھ کر عزت مآب گورنر سندھ جناب عشرت العباد خان صاحب نے بھی اس دھرنے میں شامل ہوکر اظہارِ محبت کیا۔
طوفان کر رہا ہے میرے عزم کا طواف دنیا سمجھ رہی ہے کہ کشتی بھنور میں ہے
کل جب گورنر سندھ تشریف لائے تو شرکاء دھرنا نے ان کا نہایت والہانہ اور گرمجوشی سے استقبال کیا۔ گورنر صاحب نے کیا خوب کہا کہ الطاف بھائی کے ساتھ ہماری محبت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، ان کے ساتھ سب کا عجیب و غریب رشتہ ہے، محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے چاہنے والے آج چار روز سے شدید گرمی اور حبس کے موسم میں جب K-Electricنے لوڈ شیڈنگ بھی اپنے عروج پر رکھی ہوئی ہے ، لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یقینا اس لازوال محبت پر کون نہ مَر مٹے۔ان تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے چاہنے والوں کا پیار اور دعائیں ہر لمحہ ان کے ساتھ ہے اور یہی محبت الطاف حسین کی سب سے بڑی قوت ہے۔
وزیراعظم نواز شریف صاحب کا یہ بیان کہ الطاف حسین کی ہر طرح سے مدد کریں گے، جبکہ آصف علی زرداری صاحب نے کہا کہ الطاف حسین کو انصاف فراہم کیا جائے، بقول مولانا فضل الرحمٰن کے گرفتاری افسوسناک ہے۔سابق صدر پرویز مشرف نے بھی کہا کہ اس غم اور دکھ کی گھڑی میں اے پی ایم ایل الطاف حسین اور ان کے کارکنان کے ساتھ ہیں، ان سب کے بیانات سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ سیاست کی بساط میں یہ سب ایک دوسرے کے مخالف سہی مگر ایک پاکستانی کی حیثیت سے ان کے لئے آواز اٹھانا بھی الطاف حسین کی بھرپور کامیابی ہے۔
پھر بھی چند مخالفین ایسے ہیں جو نہ آج تک دھرنے میں گئے اور نہ ہی ان کے لئے آواز بلند کی۔ ان نام نہاد مخالفین کو دھرنے میں شریک عوام اور دھرنے میں ابھی تک سیاسی رہبران کی آمد سے اندازہ لگا لینا چاہیئے کہ ایم کیو ایم ایک اٹل حقیقت ہے جسے کچلنے یا مٹانے کا خواب دیکھنے والے یقینا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔کل روزنامہ قومی اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ شیخ رشید احمد صاحب نے یہ فرمایا کہ گورنر سندھ ، الطاف حسین کے گُڈ بک میں شامل نہیں ہیں، گورنر صاحب کی دھرنے میں آنے کے بعد اور ان کے ساتھ کھڑے متحدہ کے تمام ہی قائدین کے ہونے کے بعد شیخ رشید صاحب کے اس بات کی نفی ہوتی ہے۔ مانا کہ شیخ رشید صاحب بہت اچھے مقرر، تجزیہ کار ہیں اور بولنے میں مہارت رکھتے ہیں اس لئے میں بھی انہیں پسند کی نگاہ سے دیکھتا ہوں مگر یہاں پر ان کی تجزیہ کاری فیل ہوگئی۔ مگر ساتھ ہی شیخ رشید صاحب کا یہ بیان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کا یہ بیان نہایت حوصلہ افزا اور خوبصورت ہے کہ ایم کیو ایم اپنے قائد کی گرفتاری پر بے مثال عمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ویسے تو سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی مگر جو نظر دیکھتی ہے اس پر کبھی کبھی حیرانی اور خوشگوار حیرت بھی ہوتی ہے۔ایسی خوشگوار حیرانی اور حیرت اس وقت بھی ہوئی جب ایم کیو ایم کے سیاسی مخالف عمران خان صاحب نے بھی ان کے حق میں بیان دے دیا۔
Altaf Hussain
انہوں نے کہا کہ کارکنان کا غم سمجھتے ہیں ہماری دلی ہمدردی ان سب کے ساتھ ہے۔ بلاشبہ یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے اور جو لوگ الطاف حسین کو جانتے اور سمجھتے ہیں ، وہ سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ الطاف حسین ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کے لئے دنیا کی چمک دمک کوئی معنی نہیں رکھتی اگر ایسا ہوتا تو نصف دہائی سے الیکشن جیتنے کے بعد کوئی نہ کوئی سرکاری عہدہ ضرور حاصل کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اپنے ہی کارکنان کو ایوانوں تک رسائی دلوائی، ایم این اے، ایم پی اے بنوایا۔ جس کیس میں انہیں نامزد کیا گیا ہے اس کی تمنا تو موصوف نے کبھی کی ہی نہیں، مال و زر تو اس کے ٹھوکر میں ہے پھر منی لانڈرنگ کا کیس سمجھ سے بالا تر ہے۔
گوروں کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ جو شخص لاکھوں کے مجمے کو ون ٹو تھری کہہ کر پِن سائلنس کروا دیتا ہو وہ کوئی عام آدمی نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف صاحب کا پہلا دور ہی یاد کر لیں جب وہ لیاقت آباد کے جلسے میں آئے تھے اور الطاف حسین نے پن سائلنس کا عملی مظاہرہ انہیں دکھایا تھا تو وہ بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔اسے کہتے ہیں عوامی کنٹرول جو دنیا میں شاذ و نادر ہی دیکھا جا سکتا ہے، ایسی شخصیت کو کسی مقدمے سے ڈرایا یا دھمکایا نہیں جا سکتا۔ ٢٢ سالوں سے دور بیٹھ کر اپنے عوام اور کارکنان کو کنٹرول کرنا کوئی آسان کام نہیں ، یقینا کوئی لیڈر یہ کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ ان کی اس عظیم جد و جہد کی مثال دنیا میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس ڈھیر ساری خوبیوں کے مالک الطاف حسین کے سلسلے میں گوروں کو اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ وہ کوئی عام آدمی نہیں کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں۔ ان سے روا رکھا جانے والا سلوک کسی طور پر ان کی شان پر پورا نہیں اُترتا۔ گوروں کو چاہیئے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ ان کے چاہنے والے کیا چاہتے ہیں، کروڑوں عوام کے دلوں میں بسنے والی شخصیت کو وہ اس طرح روند نہیں سکتے۔
انہیں الطاف حسین کو چھوڑنا ہی ہوگا۔کیونکہ وہ جس قبیلے کے سردار ہیں وہاں سر جھکانا کسی نے سیکھا ہی نہیں، وہ کٹ تو سکتا ہے مگر بِک نہیں سکتا۔ظلم کے بادل زیادہ دیر قائم و دائم نہیں رہ سکتے، اسے چھٹنا ہی ہوتا ہے اور گوروں کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ ان کے کارکنوں کا نعرہ ہے کہ الطاف حسین ”میرا قائد ہی نہیں میرا غرور بھی ہے”اور سب سے بڑھ کر دھرنے میں دن و رات ان کے لئے آیتِ کریمہ کا ورد جاری ہے ایسے میں انہیں کون نقصان پہنچا سکتا ہے۔
وقت کی قید میں جکڑے ہوئے لوگوں سن لو! اور ایک ہی لمحے پہ ٹھہرے ہوئے لوگوں سن لو! الطاف نہ سمٹا ہے، نہ سمٹے کاکبھی لمحوں میں وہ تو ایک احساس ہے زندہ ہے سبھی ذہنوں میں