دھرنا، دھڑن آخر کب تک؟

Azadi March

Azadi March

تحریر : عقیل خان

آج کل پاکستان کے میڈیا پر سب سے اہم ایشو ایک ہی چل رہا ہے اور وہ ہے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ۔ آزادی مارچ نے پاکستان میں اس وقت جو ہمارا سب سے اہم ایشو ہے اس کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ کشمیر جو ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے وہ بھی اب ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔آزادی مارچ سے پہلے ہی حکومت اور اپوزیشن میں سرد جنگ جاری ہے۔ مولانا نے ڈنکے کی چوٹ پر آزادی مارچ کااعلان کرکے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے، اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔’ اور اسی لیے وہ ‘آزادی مارچ’ کے لیے اسلام آباد جا رہے ہیں۔مولانافضل الرحمان کے مطابق ان کی مذہبی و سیاسی جماعت جمیعتِ علما اسلام کے کارکنان اور حامی 27 تاریخ کو ملک کے مختلف شہروں سے ریلیوں کی صورت میں نکلیں گے اور تین روز بعد 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

مولانا فضل الرحمن آنے والے بیانات کے مطابق وہ اسلام آباد میں قیام کا اراداہ رکھتے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان اکیلے اسلام آباد نہیں آ رہے بلکہ انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ساتھ چلنے کو کہا ہے۔مولانا فضل الرحمان کی دعوت کے بعد سے حزبِ اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں گومگو کا شکار رہیں کہ جائیں یا نہ جائیں؟ اس سوال پر دونوں جماعتوں میں مشاورت کا طویل دور ہوا ہے۔اس کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت کی طرف سے جے یو آئی کی ‘آزادی مارچ’ کی حمایت کا اعلان تو کردیا مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اگر مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنے کا فیصلہ کر لیا تو کیا کیا جائے گا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔ وہ صرف مارچ کی حمایت کریں گے۔پی پی پی کے رہنماوؤں کے مطابق وہ مولاناکی ریلیوں کا استقبال بھی کریں گے اور اگر انھوں نے دھرنے میں بلاول زرداری کو خطاب کے لیے مدعو کیا تووہ خطاب بھی کریں گے۔ مگر ہماری جماعت دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔

دوسری طرف ن لیگ کے بارے میں بیانات اور خبریں گردش کرتی رہیں کہ ‘نواز شریف اپنی جماعت کے مارچ میں شرکت کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جبکہ شہباز شریف اس کے حق میں نہیں مگر ن لیگ کی قیادت نے بھی فائنل فیصلہ یہ لیا ہے کہ وہ بھی آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے اور مولانا کا ساتھ دیں گے۔بعد میں یہ تاثر بھی ختم ہوگیا کہ شہباز شریف شریف آزادی مارچ کے حق میں نہیں کیونکہ شہباز شریف او رمولانا فضل الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے سارے شک وشکوک دور کردیے۔

اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ صوبائی تنظیمیں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ تعاون کا طریقہ کار وضع کریں۔انہوں نے اعلان کیا کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے پر خود اس میں شرکت کروں گا۔انہوں نے خبردار کیا کہ 27 اکتوبر کو کسی سیاسی کارکن پر تشدد کیا گیا تو اْس کا جواب وزیراعلیٰ سے اے این پی لے گی۔

مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ کوخیبر پی کے حکومت نے روکنے کا اعلان کیا ہواہے، اسی حوالے سے پارٹی ایم پی ایز کو ٹاسک دیا گیا ہے۔دوسری جانب مولانا کے دھرنے کے حوالے سے عزائم واضح ہیں۔ وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ مارچ اور دھرنا روکنے کے حوالے سے حکومتی ممکنہ اقدامات کے بارے میں مولانا نے کہا ہے کہ اگر مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تو احتجاج پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔
ایک طرف حکومت دھرنا اور مارچ کو روکنے کے لیے مذاکرتی ٹیمیں بھیج رہی ہے تو دوسری طرف اہم شاہراؤں پر کنٹینرز کھڑے کررہی ہے۔ جس سے صاف واضح ہورہا ہے کہ حکومت بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے جارہی ہے۔اگر” ایسے نہیں تو ویسے” والا فارمولا استعمال کیا جائے گا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگ کب تک دھرنا ،دھڑن کی سیاست کرتے رہیں گے؟ آخر کب ہماری حکومت اور اپوزیشن الیکشن کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے اکٹھے ہوکر ملک کے لیے سوچیں گی؟ اس وقت ملکی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ہمارا ملک کی جب سے نئی حکومت آئی ہے ابھی تک معاشی حالت بہتر نہ ہوسکی۔کاروباری لوگ جو پہلے خوار ہورہے ہیں وہ اب مزید خوار ہونگے۔ عوام جو مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اب وہ مزید دلدل میں پھنسے گی۔
دوسری طرف ہم مسلمانوں کاسب سے اہم ایشو کشمیرہے جہاں سرحد پر ہر روز جنگ کا سماں رہتا ہے۔ بجائے اس کے کہ حکومت پاکستان اور اپوزیشن ملک کر کشمیر کے لیے کوئی قدم اٹھائیں ۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اگر ہماری شہ رگ ہی کٹ گئی تو پھر کیسے جئیں گے۔

خدارا یہ دنیا عارضی ہے اور اس میں جتنا بھی لوگوں کا احساس کرلیں اتنا کم ہے۔ آخرت میں ہمارے وہی کام آئے گا جو ہم نے اس دنیا میں اچھا کام کیا ہوگا؟ہم مسلمان پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیںخواہ وہ محبت و اخوت ہو یا عاجزی و انکساری۔ اس لیے ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی یاد رکھتے ہوئے اپنی عوام کے لیے وہ کام کریں جن کی مثال ہم ریاست مدینہ کے حکمرانوں کی دیتے ہیں۔ایک طرف مولانا صاحب ہیں تو دوسری طرف ریاست مدینہ کی طرز پر حکمرانی کرنے والے امیر، اب دیکھنا ہے کہ وہ اکتوبر میں مارچ لانے والوں سے کیا سلوک کرتے ہیں؟

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com