تحریر : حفیظ خٹک اپنی بات کرنا اپنا موقف سامنے رکھنا ،مطالبہ کرنا ، احتجاج کرنا، پرامن اور پرتشدد مظاہرہ کرنا ہر شہری کا حق ہے ۔ اپنے اس حق کو شہری جہاں چاہے استعمال کرسکتا ہے تاہم اس مقصد کیلئے سب سے نمایاں اور اہمیت کی حامل جگہ پریس کلب ہوتا ہے جہاں پر ذرائع ابلا غ کے نمائندے ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔ اخبار ، ٹی وی چینل، ریڈیو، میگزین سمیت دیگر تمام ہی ذرائع ابلاغ کی ایک مستند جگہ پریس کلب ہوا کرتا ہے ۔جس میں آکر اور اس کے سامنے متاثرہ شہری و عوام اپنی آواز کو اٹھاتے ہیں ان کی انفرادی و اجتماعی اس اقدام کو ذرائع ابلاغ کے نمائندے اپنے اداروں میں لکھتے ہیں انہیں چھاپنے اور نشر کرنے کے ساتھ حکومت سمیت سب کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
جس سے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ تاہم شہر میں جابجا مظاہروں ، احتجاجوں اور دہرنوں کے باعث عوام ہی کو مشکلات اور سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ احتجاج کسی بھی ضمرے میں ، کسی بھی حوالے سے ہو، مسائل کی نشاندہی ان کے حل کی جانب توجہ کا واحد راستہ ایسے ہی احتجاج کو سمجھا جاتا ہے جس سے شہر کا نظام زندگی متاثر ہواایسے واقعات کے بعد شہری انتظامیہ کو ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کااحساس ہوتا ہے جس کے بعد وہ فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی جانب بڑھتے ہیں احتجاجیوں سے شاہراہوں پر اجلاس و مذاکرات کرتے ہیں ، ان کی مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی جانب سے یقین دہانیاں کراتے ہیں اور پرامن اندازمیں مظاہرین کو منتشر کرکے شہری زندگی کو رواں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس دوران اگر مذاکرات لاحاصل ہوتے ہیں تو معاملہ لاٹھی چارج تک بھی پہنچ جاتا ہے اور دوسری جانب سے مظاہرین پتھراؤ بھی کرتے ہیں جس سے انسانی زندگی پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ متعدد بار ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں انسانی زندگیاں تک ختم ہوگئی ہیں۔ مریض ایمبولینسوں میں ہی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ابدی زندگی کی جانب بڑھ جاتے ہیں ، حاملہ خواتین تک متعلق ایسی خبریں عوام کے سامنے آچکی ہیں جن میں یہ بتا یا گیا ہوتا ہے کہ احتجاج کے باعث ٹریفک جام ہونے سے ایمبولینس میں بچے کی ولادت ہوئی۔ معصوم بچوں کی بھی ایسی خبریں ہوتی ہیں جن کو سننے والا عوام کے اس گروہ پر جو اپنی مظلومیت کا رونا سڑکوں کو بند کرکے روتے ہیں ، مسائل کو حل کرنے کی اور کرانے کی کوشش کرتے ہیں ان سے ہمدردی کے بجائے نفرت کا جذبہ و احساس پیدا ہوتا ہے۔
Protesters
ایسے حالات و واقعات ، احتجاج و پرتشدد لمحات اور ان سے بچاؤ کے طریقوں ، ان کے متبادل راستوں کیلئے اک تفصیلی عوامی سروے کیا گیا جس کے دورا ن عوامی کے جذبات قابل توجہ ہونے کے ساتھ قابل عمل تھے۔ شاہراہ فیصل جو کہ شہر قائد کی سب سے اہم شاہراہ ہے اس سے ہی سروے کا آغاز کیا گیا ۔ نرسری کے مقام پر انیس احمد کا کہنا تھا کہ احتجاج تو عوام کا حق ہے لہذا اس حق کو تو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس غرض کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس قانون کے تخت عوام اپنے مسائل کی نشاندہی کیلئے احتجاج کریں ، ہینڈبل دیں اپنی پریس ریلیز دیں یا ایسا کوئی اور راستہ کہ جس کے ذریعے ان کی موقف آگے کی جانب بڑھ سکنے کے بعد حل ہو۔
اس قانون پر عمل درآمد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ فہیم ملک کا کہنا تھا کہ شہر میں اب تو صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ ہر سو گاڑیاں ،موٹرسائکلیں و دیگر ذرائع آمدورفت نظر آت ہیں کسی بھی سڑک پر سکون نہیں مل پاتا ہے۔ ہجوم در ہجوم ہوتا ہے۔ جہاں تک عوام کی بات ہے ، ان کے احتجاج کا معاملہ ہے اس کیلئے یہ بات تو مناسب نہیں کہ وہ اپنی جانب توجہ مبذول کرانے کیلئے اوروں کو تکلیف میں مبتلا کریں تاہم حکومت کو اس انداز میں معاملات اور مسائل حل کرنے چاہئے جن کے بعد احتجاج کی نوبت ہی نہ آئے۔ رافع علی کا کہنا تھا کہ شہر میں ایک مقام ایسا ہونا چاہئے جو سب کیلئے اپنی بات آگے پہنچانے اور حل کرنے کیلئے اول تو آسان پہنچ ہواور اس کے ساتھ اس بات کا مدنظر رکھا جائے کہ ان کے کسی عمل سے کسی اور کو کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے۔
رابعہ ناصر نے اس حوالے سے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا پارک بنائے جیسا کہ لندن میں ہائیڈ پارک بنا ہے اس میں احتجاج کا سب کو حق ہو اپنی بات کا حق ہو اپنے مطالبات کا حق ہو اور ان حقوق کیلئے اس پارک میں وہ مظاہرہ کریں ، مارچ کریں بھوک ہڑتال کریں یا کوئی اور راستہ اختیار کریں لیکن یہ بات حکومت کو مدنظر رکھنی چاہئے کہ ایسے کسی احتجاج پارک میں ہونے والے ہر اقدام پر ان کی جانب سے قدم جلد از جلد اٹھایا جائے۔ انہی کے ساتھ ماریہ خان نے کہا کہ ایسی احتجاج گاہ تک پہنچ باآسانی ہونے کے ساتھ ایسا بھی قدم اٹھایا جانا چاہئے کہ ایک عمارت اس پارک میں ، احتجاج گاہ میں بنائی جائے اور وہ عمارت پریس کلب کے حوالے کردی جائے ۔ اس کے نتیجے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندے وہاں پر موجود ہوں گے اور انہی کی وجہ سے مظاہرین کی ، احتجاجیوں کی بات باآسانی ذرائع ابلاغ کے ذریعے حکام تک پہنچ پائے گی۔
Shahrah-e-Faisal
نادر الہی کا کہنا تھا شاہراہ فیصل کے علاوہ بھی متعدد اہمیت کی حامل سڑکیں ہیں جو بسا اوقات ایسے ہی کسی معاملے کے باعث بند ہوجاتی ہیں ۔ شاہراہ فیصل پر تو ایئر پورٹ ہے ، اس سمیت دیگر اہمیت کی حامل سرکاری و غیر سرکاری عمارتیں ہیں ۔ اندورن ملک و بیرون ملک سے آنے والوں کا معاملہ ہے۔ ان کے ساتھ وی آئی پیز کا معاملہ ہے جو کہ سب سے زیادہ حساس نوعیت کا ہے ۔ اب اگر صدر یا وزیر اعظم کو شہر قائد آنا ہے یا آگئے ہیں تو گھنٹوں شاہراہ فیصل بند رہے گی ۔ ٹریفک کی میلوں لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں ۔لہذا ایسا عمل اختیار کیا جانا چاہئے کہ جس سے وہ آئی پیز کی آمد ہو یا کوئی بھی اور معاملہ ، سڑکیں بند نہ ہوں عوام کی زندگی متاثر نہ ہو۔
گورا قبرستان کے قریب اقبال مسیح نے کہا کہ سڑک بند نہیں ہونی چاہئے چند روز قبل بھی کسی سیاسی جماعت کا کوئی مظاہرہ تھا جس کے باعث پوری شاہراہ کئی گھنٹوں تک بند رہی۔ ندیم رانجھا نے کہا کہ احتجاج حق تو ہے لیکن اس کے استعمال کا علم ہونا بھی لازم ہے ، لہذا ایسا کوئی مظاہرہ ہو جس سے عام زندگیوں کو مشکلات پیش آئیں ان کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فورا حرکت میں آجانا چاہئے۔
ظفر عباسی نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ پریس کلب کو فوری طورپر شہر سے باہر منتقل کردیں ، ابھی آپ دیکھیں کراچی کریس کلب شہر کے مرکزمیں قائم ہے جس پر روزانہ کوئی پریس کانفرنس ، احتجاج ، مظاہرہ و دیگر معمول ہیں لیکن اس پریس کلب تک پہنچنا اک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے بعد مظاہروں سے پریس کلب کے قریب شاہراہوں بند ہوجاتی ہیں جس سے پیدا ہونے والے مسائل ناقابل بیان ہے۔
Problems
انہوں نے مزید کہا کہ پریس کلب کو ذمہ داران کو بھی ازخود اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کی بجاآوری میں کس طرح کے مسائل کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا میں تو اپیل کرتاہوں پریس کلب کے صدر سے اور تمام صحافیوں سے کہ وہ اس معاملے پر اجلاس بلائیں اور فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پراس مسئلے کو حل کرنے کی جانب آگے بڑھیں ۔ ایڈووکیٹ عدیل نے ڈرگ روڈ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسائل نہ ہوں تو احتجاج ہی ہوں گے اس لئے اول تو تمام حکومتی اکابریں و دیگر انتظامی اہلکار ایسے مسائل ہی رونما نہ ہونے دیں جن کی بدولت عوام احتجاج کی جانب بڑھیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے معاملات بھی آتے ہیں جن میں ٹریفک کی بندش کے باعث انسانی جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں ۔ ائیر پورٹ پر اک مسافر نوشیرواں عادل نے جذباتی انداز میں کہا کہ چند روز قبل ان کی ملک سے باہر جانے والی پرواز مرکزی شاہرہ فیصل کی بندش کے باعث مس ہوگئی۔
اس روز اسٹیل مل کے ملازمین سمیت دیگر کئی ایسے ہی مسائل کے شکار شاہراہ فیصل پر احتجاج میں مصروف تھے جس کی وجہ سے میں نے متعدد ایمبولینسیں جن میں مریض موجود تھے ان کے سائرن بج رہے لیکن وہ سب بے حال تھے ، ایک مریض تو ایسا تھا کہ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اس کو ہسپتال تک پہنچانے کی کوشش میں دیگر کئی مسافروں نے حصہ لیا لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی ۔ا س لئے میری یہ رائے ہے کہ ایک احتجاج گاہ ہونا چاہئے جس میں پریس کلب بھی ہواور ایئر پورٹ سے دور اس جگہ پر اپنے مطالبات کیلئے مظاہرے ہوں لیکن مظاہرہ کرنے والوں کو بھی اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ ان کے اس عمل سے کسی دوسرے تکلیف نہ ہو۔ ائیر پورٹ سے بیرون ملک و اندرون ملک کی پروازیں آتی اور جاتی ہیں جن میں غیر ملک بھی ہوتے ہیں اب ایک غیر ملک کا باشندہ جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے ذریعے شہر قائد میں آتا ہے اور وہ جب اپنی رہائش گاہ کیلئے جب کسی ہوٹل میں جائے تو سڑکوں پر احتجاج ہوں ، بتائیے اس لمحے ہمارے ملک کا اس پر کیا اثر پڑے گااور کتنا منفی اثر پڑے گا؟
Surveys
اسی طرح کے خیالات کا اظہار شہر قائد کے شہریوں نے اس سروئے کے دوران کیا ، ایک نقطہ جس پر سبھی متفق تھے وہ یہی تھا کہ احتجاج عوام کا حق ہے لیکن اس احتجاج سے اور کو تکلیف ناحق ہے ، لہذا ایسے مقام کا تعین ہونا چاہئے جسے احتجاج گاہ کانام دے دیں یا کچھ بھی اور نام سہی لیکن اس کا مقصد بہت واضح ہو اور وہ یہی ہو کہ اپنی بات ، مسائل و دیگر اس جگہ آکر بیان کئے جائیں ۔ اس حوالے سے قانون سازی ہو اور جو اس قانون کی خلاف ورزی کرئے اس کے خلاف کاروائی ہو۔ اسی مقصد کی تکمیل کیلئے اک صحافی سے لے کر حکومتی وزیر اعلی تک اپنا کردار اداکرئے۔