تحریر: ایم سرور صدیقی کہا جاتا ہے جنگ اور سیاست میں بروقت فیصلہ کرنے کی بڑی اہمیت ہے جن لوگوںمیں قوت ِ فیصلہ نہ ہو یا جو حالات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں وہ کبھی غالب نہیں آسکتے۔۔جب تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد آزادی مارچ کااعلان کیا ایک تہلکہ مچ گیا اور حکومتی صفوںمیں سرا سیمگی۔۔۔ پھرجب عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی انقلاب مارچ کیلئے 14اگست کے دن کا ہی انتخاب کیا تو تھرتھلی مچ گئی وزیروں مشیروں اور ان کے مشیروںکی توپوںکا رخ دونوں رہنمائوںکی طرف ہوگیا کچھ لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری کو اہمیت دینے کو تیارنہ تھے کہ جو پارٹی پارلیمنٹ سے باہرہے وہ حکومت پردبائو نہیں ڈال سکتی۔۔ایک خاموش معاہدے کے تحت دونوں تحریکوںنے بیک وقت اپنے سفرکا آغازکرنا تھا لیکن تحریک ِ انصاف کے قائدین کے دل میں اکیلے اکیلے میلہ لوٹنے اور کریڈٹ لے جانے کا شوق انگڑائیاں لینے لگا انہوںنے ماڈل ٹائون میں کنٹینروںمیں محصور ڈاکٹر طاہرالقادری کو ساتھ لے کر چلنا مناسب خیال نہ کیاPTIکے بیشتررہنما اتنے پرجوش تھے
جیسے ان کے اسلام آباد پہنچتے ہی میاں نوازشریف ڈرکے مارے استعفیٰ دیدیں گے ۔۔۔دونوںپارٹیوںکے ا لگ الگ اسلام آباد جانے سے ان کی قوت تقسیم تو ہوئی لیکن جب انہوںنے ڈی چوک میں پڑائو ڈالا تو ڈاکٹر طاہرالقادری کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ تو عمران خان سے زیادہ لوگ ہیں حالانکہ عمران خان نے عوامی تحریک سے بہترہوم ورک کیا تھا پھر راولپنڈی اسلام آبادکے قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں اسدعمر،خود عمران خان اور شیخ رشید ایم این تھے دو ایم پی اے بھی موجود تھے اور سب سے بڑھ کر خیبر پی کے صوبہ کی گورنمنٹ ان کی پشت پر کھڑی تھی ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس ایسا ایک بھی ایج نہ تھابہرحال ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان اپنے اپنے حامیوںکے ہمراہ روزانہ کنٹینرپر میاں نوازشریف کوللکارتے رہے
ڈی چوک جہاں چڑی پر بھی نہیں مار سکتی وہاں ہزاروں افراد دھرنا دئیے بیٹھے تھے یہ مناظر بھی عجب تھے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی وہ دھرنا سیاست کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ شیخ الاسلام کے لہجے میں تلخی زیادہ تھی سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کے شہداء کا خون حکومت سے قصاص مانگ رہا تھا اسی اثناء میں جب حکومت پر دبائو بڑھا تومیاں نوازشریف حکومت نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو” سہولت کار”کا کرداراداکرنے کوکہایہی وہ وقت تھا جب عمران خان اورڈاکٹر طاہرالقادری کو واپسی کا باعزت راستہ مل سکتا تھااحتجاج کرنے والے دونوں رہنمائوں کوآرمی چیف نے ملاقات کیلئے مدعوکیا
Raheel Sharif
شنیدہے کہ آرمی چیف نے شیخ الاسلام سے وعدہ کیا کہ سانحہ ٔ ماڈل ٹائون کی غیرجانبدار تحقیقات تک میاں شہباز شریف اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے جبکہ عمران خان کو کہا گیا کہ اگر وہ وزیر ِ اعظم کے استعفیٰ کے مطالبہ سے دستبردارہو جائیں تو باقی 5مطالبات تسلیم کرنے کیلئے پوری کوشش کی جائے گی اسی اثناء میں حکومت نے بھی اعلان کردیا کہ وہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جو ڈیشل کمیشن بنانے کیلئے تیارہے۔۔۔لیکن عمران خان حالات کا درست اندازہ نہ لگا سکے انہوںنے وزیر ِ اعظم کے استعفیٰ کے مطالبہ سے دستبردارہو نے سے انکارکردیااسی لئے کہاجاتاہے جنگ اور سیاست میں بروقت فیصلہ کرنے کی بڑی اہمیت ہے جن لوگوںمیں قوت ِ فیصلہ نہ ہو یا جو حالات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں وہ کبھی غالب نہیں آسکتے۔۔۔۔
اگلے روز منظرنامہ ہی تبدیل ہو چکا تھا پارلیمنٹ میںPTIکے علاوہ تمام جماعتیں میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہوگئیںخورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، محمود اچکزئی،چوہدری اعتزاز احسن اور اسفندیارولی خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں برملا کہا 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے لیکن ہم جمہوریت کی بقاء کیلئے میاں نواز شریف کے ساتھ ہیں۔۔پھرجب دھرنے کے شرکاء ڈی چوک سے پارلیمنٹ کی طرف بڑھے تو ایک حشر بپاہوگیا آنسوگیس، ربڑکی گولیاں، فائرنگ،لاٹھی چارج اور مزاحمت کے نتیجہ میں ہزاروں متاثرہوئے۔کئی جان سے گئے درجنوں زخمی ہوکرہسپتال جا پہنچے اس کے باوجود حکومت نے کوئی بھی مطالبہ تسلیم نہیں کیا عمران خان نے حکومت پردبائو بڑھانے کیلئے شہر شہر جلسے کرنے کا پروگرام بنایا
لیکن کتنی عجیب بات کہ انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو اعتمادمیں لینا بھی گوارانہیں کیا دھرنا تحریک کا بغورجائزہ لیاجائے تو احساس ہوگاشروع دن ہی سے دونوں تحریکوںکے درمیان کوارڈی نیشن نام کو بھی نہیں تھا حالانکہ ان کا ایجنڈا ایک تھامقصد ایک اور دشمن مشترکہ۔۔۔واقفان ِ حال کا کہناہے کہ تحریک ِ انصاف حد درجہ خوش فہمی کا شکار تھی کہ” ایمپائر ”کی انگلی اٹھ جائے گی ۔۔ایک بات طے ہے کہ خوش فہمی ہو یا غلط فہمی اس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا دونوں صورتوںمیں خودساختہ تانے بانے الجھ جاتے ہیں بہرحال70روز بعد دھرنوںکی طوالت سے تنگ ڈاکٹر طاہرالقادری مایوس ہوکر انقلابی دھرنا لپیٹ کر چلتے بنے اس کے ساتھ ہی ڈی چوک میں جورونق تھی وہ ختم ہوگئی
Imran Khan Protest
یوںعمران خان کا دھرنا علامتی دھرنا رہ گیا اس سے جو پریشر حکومت پر نظر آرہا تھا وہ یکسرختم ہوگیا اور حکومت نے مذاکرات سے انکارکردیا۔۔۔اگر عمران خان اورڈاکٹر طاہرالقادری کے درمیان بہترین کوارڈی نیشن ہوتی تو اس کا فائدہ یقینی طورپر دونوںکا ہوتا اور آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔۔۔کہاوت ہے عقل مندکو غلطی کااحساس ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو درست کرنے کی کوشش کرتاہے جبکہ جاہل ضدپر اڑ جاتاہے دھرنوں کے دوران پورا اپاکستان جس اذیت سے دو چارہوا چینی صدر سمیت کئی ممالک کے سربراہان ِ مملکت کے دورے ملتوی ہوگئے معیشت کا اربوںکا نقصان الگ اٹھاناپڑا اس کا تقاضا تھا
حکومت دھرے والوںکے مطالبات پر ہمدردانہ غورکیلئے ٹھوس اقدامات کرتی لیکن میاں نواز شریف نے دبائو سے نکلتے ہی سارا معاملہ زبان دراز وزیروں مشیروں پر چھوڑ دیا اس میں کوئی شک نہیںحکومت کی حکمت ِ عملی کامیاب تو رہی کہ انہوںنے تحریک ِ انصاف کو تھکا دیا شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ایک بار پھر ناکام ہوگئے کہنے والے کہتے ہیں یہ ناکامی حکومت کی یہ کامیابی وقتی کامیابی ہے لیکن حکومت کو ایک مضبوط،فعال اور متحرک اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دھرنوںنے قوم کو ایک نئے شعورکا ادراک دیا
آنے والے الیکشن یقینا بڑے معرکہ الاراء ہوں گے عمران خان جو کچھ کررہے ہیں ایک طرح سے یہ ان کی انتخابی مہم ہے جو انہوںنے وقت سے پہلے شروع کردی ہے جبکہ حکومت مسلسل اپنا دفاع کرنے پر مجبورہے جنگ اور سیاست میں بروقت فیصلہ کرنے کی بڑی اہمیت ہے جن لوگوںمیں قوت ِ فیصلہ نہ ہو یا جو حالات سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں وہ کبھی غالب نہیں آسکتے۔۔۔اس بات سے سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن بد قسمتی سے سیکھنے کی کوشش کوئی کوئی کرتاہے۔