کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سینکڑوں افراد کے ایک مظاہرے کو حکمران طالبان کے جنگجوؤں نے منتشر کر دیا۔ اس مقصد کے لیے طالبان نے ہوائی فائرنگ کی۔
کئی احتجاجی ریلیوں میں سینکڑوں مرد اور خواتین شریک تھے۔ ان ریلیوں کو منتشر کرنے کے لیے طالبان نے ہوائی فائرنگ کی۔ کسی فرد کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں۔
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے بدستور خوف کی فضا قائم ہے اور اس کی وجہ طالبان کا وہ سابقہ دورِ اقتدار ہے، جس میں انہوں نے سفاکانہ انداز میں حکومت کی تھی۔
افغان دارالحکومت میں جن ریلیوں میں مظاہرین شریک تھے، ان کی تعداد تین بتائی گئی ہے۔ ان میں سے ایک ریلی کابل میں پاکستانی سفارت خانے تک بھی پہنچی۔ اس میں ستر سے زائد خواتین کے علاوہ کچھ مرد بھی شریک تھے۔
اس ریلی میں شریک خواتین نے ایسے بینر اٹھائے ہوئے تھے، جن پر سکیورٹی صورت حال میں بہتری اور ملک سے باہر جانے کے لیے محفوظ راستے کے مطالبات کے علاوہ افغان معاملات میں پاکستان کی مبینہ مداخلت کے خلاف مذمتی کلمات بھی لکھے ہوئے تھے۔
اس ریلی میں شریک ایک خاتون سارہ فہیم نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ افغان خواتین اپنے ملک کی آزادی چاہتی ہیں اور وہ ملکی تعمیرِ نو کا حصہ بننا چاہتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کے تمام شہری معمول کی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ کب تک ایسے حالات میں زندگی بسر کرتے رہیں گے۔
کابل کی طرح دوسرے افغان شہروں، جن میں ہرات اور مزار شریف خاص طور پر نمایاں ہیں، میں بھی چھوٹے بڑے جلوس نکالے گئے اور کم و بیش سبھی مظاہرین کے بیانات کابل کے مظاہرین کے بیانات جیسے تھے۔
ایک احتجاجی ریلی میں شریک پیشے کے اعتبار سے لیڈی ڈاکٹر زہرہ محمدی نے کہا کہ وہ اور دوسرے شرکاء افغانستان کی آزادی کے متمنی ہیں۔ افغان امور کے ماہرین نے ان احتجاجی ریلیوں کو عوامی مزاحمتی عمل سے تعبیر کیا ہے۔ ان احتجاجی ریلیوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئیں۔
طالبان کے ایک سینیئر کمانڈر جنرل مبین اس وقت کابل کی داخلی سکیورٹی کے نگران ہیں۔ انہوں نے موقع پر پہنچ کر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں طالبان محافظوں نے فون کر کے ان ریلیوں کے بارے میں مطلع کیا کہ خواتین شہر کے ماحول کو ‘درہم برہم‘ کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مظاہرے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ ان ریلیوں میں موجود ایک صحافی کا کہنا تھا کہ طالبان گارڈز اسے ٹھوکر مار کر کہا کہ وہ فوری طور پر وہاں سے چلا جائے اور اس کے کیمرے اور پریس کارڈ کو بھی ضبط کر لیا گیا۔