ہانگ کانگ (جیوڈیسک) جمہوری اصلاحات کے حق میں مظاہرے کرنے والے ہزاروں افراد کی طرف سے اپنے احتجاجی خیمے ہٹا کر گھر جانے سے انکار کے بعد ان کا احتجاج جاری ہے۔ پیر کی صبح پولیس کی طرف سے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی جارج کے استمعمال کے بعد مظاہرین کی تعداد بڑھ گئی جس کے بعد پولیس پسپا ہوئی۔
ہانگ کانگ کی حکومت نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ خاموشی اور پرامن طریقے سے چلے جائیں لیکن مظاہرین پیر کی رات تک سرکاری کمپلیکس کے باہر اپنے خیموں میں ہیں۔ یہ مظاہرین چینی حکومت کی جانب سے ہانگ کانگ میں 2017 میں ہونے والے انتخابات کے امیدواروں کی چھان بین کے مبینہ فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ممالک کو ان ’غیر قانونی‘ مظاہروں کی حمایت کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
مظاہرین جن میں طلبا اور اوکیوپائی سینٹرل گروپ کے اراکین شاملہ ہیں، چاہتے ہیں کہ حکومت سنہ 2017 میں چیف ایکزیکٹیو کے عہدے کے لیے ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کی چھان بین کا منصوبہ ترک کر دے۔ مظاہرین چاہتے ہیں کہ انھیں امیدواروں کو چننے میں آزادی ہو۔ ابھی تک ہانگ کانگ کے چیف ایکزیکٹیو بیجنگ کی طرف جکاؤ رکھنے والے طریقۂ کار کے ذریعے منتخب ہوتے تھے۔
برطانیہ نے پیر کو مظاہرین کے احتجاج کرنے کے حق کو محفوظ کرنے اور مظاہرین کو قانون کے دائرے کے اندر احتجاج کرنے کا کہا۔ اسی قسم کا موقف امریکہ نے بھی اختیار کیا اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے ہانگ کانگ کے حکام پر زور دیا کہ وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں۔
پولیس کے اسیسٹنٹ کمیشنر چانگ ٹاک کیونگ کا اصرار ہے کہ پولیس نے طاقت کا ’کم سے کم‘ استعمال کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے اب تک 41 افراد خمی ہوئے ہیں جن میں 12 پولیس افسر بھی شامل ہیں۔
حکام نے ان مظاہروں کو ’غیرقانونی‘ قرار دیا ہے اور بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی گئی پولیس فورس نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے کارروائی بھی کی تھی۔ ادھر چین کا کہنا ہے کہ اسے یقین ہے کہ مقامی انتظامیہ اس معاملے کا حل نکال لےگی۔
چین کے ہانگ کانگ اور مکاؤ کے امور کی وزارت کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین ’ایسی غیر قانونی سرگرمیوں کی شدید مخالفت کرتا ہے جو قانون کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں اور معاشرتی سکون برباد کریں۔‘ چین نے 1997 میں ہانگ کانگ کا کنٹرول ایک معاہدے کے تحت چین کے حوالے کیا تھا جس کے مطابق وہاں عوام کو اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی حاصل ہے۔