مخالف ہوا چلی ہے ابھی

March Revolution

March Revolution

وطنِ عظیم میں پچھلے اٹھارہ دنوں سے حکومت کے خلاف عوامی مارچ (یعنی کہ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ) جاری ہے۔ خان صاحب اور قادری صاحب کی قیادت میں ہزاروں لوگ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے شاہراہ دستور کے سامنے بیٹھے نواز شریف کے مستعفی ہونے اور نئے الیکشن کروانے کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ پچھلے سترہ دنوں سے یہ مارچ پر امن طور پر جاری تھا لیکن کل اس مارچ نے اس وقت تشدد کی راہ اختیار کر لی جب مارچ کے شرکاء نے اپنے لیڈروں کے کہنے پر ریڈ زون پر دھاوا بول دیا۔

مظاہرین، اعلان تو یہ ہوا تھا کہ وزیراعظم ہائوس کے سامنے پُر امن دھرنا دیا جائے گا اور جب شرکاء وہاں جانے کے لئے نکلے تو پولیس نے بھی محفوظ راستہ دے دیا تھا۔ بقول سرکاری خبروں کے کہ مارچ کے مظاہرین پارلیمنٹ ہائوس سمیت دیگر عمارتوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، پھر کیا تھا پولیس نے پُر امن شرکاء پر جن میں معصوم بچے ، خواتین، جوان سبھی شامل تھے ، آنسو گیس شیلنگ ، ربڑ کی گولیاں اور شاید حقیقی گولیاں بھی چلا ڈالیں، اور یہ سلسلہ ہنوز وقفے وقفے سے جاری ہے۔

اب تک پانچ سو سے زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ سو کی حالت انتہائی تشویشناک ہے، اور تین افراد جاں بحق بھی ہو چکے ہیں۔ یعنی کہ دارالخلافہ کی سر زمین بھی خون کی پیاسی ہو گئی ہے۔اب حالات ایسے موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہے، اور لگتا ہے کہ سوائے تصادم کے کوئی اور راستہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب اور قادری صاحب نے آخر وہ راستہ اختیار کر ہی لیا جو بند گلی میں جاکر ختم ہوتا ہے۔ اور جہاں مسئلہ لا یخل بن جاتا ہے اور اس طرح انہوں ن ملک پر فوجی اقتدار کے خطرہ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بہرحال جو ہوگیا وہ صحیح تھا یا غلط اور ابھی آگے کیا کچھ ہونے والا ہے یہ سب تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن اتنا تو طے ہے کہ اس موقع پر ہر سیاسی جماعت اور ہر طبقہ بار بار زبانِ حا ل سے بس یہی ایک شعر گنگنانا چاہتا ہے۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

اس نہج پر اگر سیاست اور حکومت کے میدان کی طرف دیکھا جائے تو یہاں کا منظر بھی کچھ عجیب تھا، وزیراعظم صاحب میڈیا کے نمائندوں پر ہوئے پولیس چارج پر نوٹس تولے رہے ہیں مگر نہتے عوام پر ہوئے پولیس کی بربریت اور ظلم کا انہیں کوئی افسوس نہیں۔ جبکہ ان کے وزرا بھی میڈیا پر دھاوابولنے والے پولیس والوں کو ہٹاتے ہوئے دیکھے گئے، کاش! کہ وہ عوام پر ہونے والے ظلم پر بھی اُن پولیس والوں کو روکتے۔ اسلام آباد میں ایسی فضا قائم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی روح بھی ششدررہ گئی ہے، اور پاکستان کا ہر ذی عقل شہری بھی حیرت کا مجسمہ بننے پر مجبور ہوگیا ہے۔ کل رات ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ملک کا سارا نظام چوپٹ ہو چکا ہے اور ہر طرف شیلنگ ہی شیلنگ ہے۔ دھواں ہی دھواں ہے۔

بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ” امتحاں ہے تیرے ایثار کی خود داری کا ملک میں نئی حکومت کے قیام کے بعد سے جس طرح تحریکِ انصاف نے دھاندلی کا معاملہ اُٹھایا تھا اور چار حلقوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ، یہ معاملہ تب ہی حکومت کو حل کر لینا چاہیئے تھا پھر شاید نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ پھر سانحہ ماڈل ٹائون رونما ہوگیا، وہاں بھی انسانی جانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، اور اب اسلام آباد بارود کا ڈھیر بن رہا ہے۔کنٹینر والوں کے لئے واپسی کا راستہ نہیں بچا تو حکومت کے پاس بھی سوائے استعفیٰ کے کوئی اور آپشن نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایسے میں ایک پاک افواج ہی بچتی ہے جو معاملہ کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کروا سکتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس طرح کا بریک تھرو کب ملتا ہے۔

Prime Minister House

Prime Minister House

اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پاکستان میں جمہوریت کو ایک بار پھر خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جس طرح سے اپوزیشن اور برسرِ اقتدار طبقے کے درمیان ٹکرائو نے ایک سنگین حالت اختیار کر رکھی ہے کہ اس سے اس بات کا خدشہ ہونے لگا ہے کہ یہاں جمہوریت شاید بہت دنوں کی مہمان نہیں ہے۔ موجودہ سیاست کے تعطل کو ختم کرنے کے لئے فوج کو ایک بار پھر اہم سیاسی رول ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مظاہرین نے جس طرح سے وزیراعظم ہوائوس اور پارلیمنٹ کو گھیر لیا ہے اس سے ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ ہفتے کی رات سے ہی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ اتوار کی صبح تک جاری رہا۔

وزیر اعظم ہائوس پر یلغار اور تشدد کے واقعات میں زخمی ہونے والے چار افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دگرگوں صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوج کی کور کمیٹی کی میٹنگ طلب کر لی گئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج حالات کو بگڑتے ہوئے دیکھ کر اب مزید تماشائی بنی نہیں رہ سکتی۔ اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ موجودہ بحران کو اگر کوئی سیاسی حل نہیں نکلا تو فوج حکومت کی کمان اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ہر طرح کی مذاکرات کے بے معنی ہونے کے بعد اور پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد کوئی راستہ نظر نہ آیا تو افواجِ پاکستان کو مصالحت کے لئے آگے آنا پڑا۔ دو روز قبل ایسا لگنے لگا تھا کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک فوج کے مشورے کو تسلیم کرکے کسی مصالحت پر رضا مند ہو جائیں گے لیکن ہفتہ کی رات ٹکرائو کی صورحال اس وقت پیدا ہوگئی۔

جب مظاہرین ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کرنے لگے۔ہمارے ملک میں کافی عرصے بعد جمہوریت کا پودا پنپنے لگا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب یہاں پیپلز پارٹی نے پانچ سال کی اپنی مدت پوری کی۔ اس کے بعد انتخابات میں مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف منتخب ہوکر وزیر اعظم بنے لیکن ان کے منتخب ہونے پر بھی دھاندلی کی چھاپ لگ گئی۔ یوں پاکستانی سیاست میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ مچ گئی۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں برسر اقتدار آنے والی حکومت عوام کی سچی نمائندہ کہلانے کی مستحق نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت کا سیاسی بحرا ن ہمارے لئے ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔دھرنے میں شریک مظاہرین کے علاوہ عوام کی ایک کثیر تعداد یہ کہہ رہی ہے کہ جب کسی عام آدمی کے خلاف صرف دفعہ 144میں ہی ایف آئی آر کٹ جائے تو اُسے پابندِ سلاسل کر دیا جاتا ہے۔

تو پھر جب سانحہ ماڈل ٹائون میں 302کی دفعات کے ساتھ ایف آئی آر کاٹی گئی ہے تو پھر وہ لوگ باہر کیوں ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں دو مختلف قسم کے قانون چل رہے ہیں، امراء کے لئے الگ اور غریبوں کے لئے الگ۔ ایسا عمل وطنِ عزیز کے لئے سود مند نہیں۔ دوسری طرف حکومت نے شہباز شریف کی پنجاب حکومت سے دستبرداری کی حامی بھی بھر لی ہے تو پھر کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی کو اپناتے ہوئے احتجاج کو مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دیکھیں کہ اب یہ سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ آنے والے دنوں میں تمام صورتحال واضح ہوگی ۔ ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ جمہوریت کے پودے کو سر سبز ہونے دیا جائے۔اختتام کلام بس اتنا اُن ارباب کے لئے جو یہ مسئلہ حل کروا سکتے ہیںمگر خاموش تماشائی ہیں:
شریکِ جرم ہی ہوگا’جو اب رہا خاموش
خدا کی قسم! یہ مٹی وفا کو ترسے گی

Muhammad Javed Iqbal Siddiqui

Muhammad Javed Iqbal Siddiqui

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی