تحریر : انجم صحرائی وزیر اعظم نواز شریف کے ہیلی کاپٹر نے ایک میل کے جلسہ کے اختتام کے بعد واپسی کے لئے اڑان بھری ہی تھی کہ لیہ حلقہ کے ایم پی اے نے جلسہ کے اگلے ہی دن ٹریفک پولیس کے نام پر گھوڑا چوک میں دھرنا سجا لیا سارے دن کی دھرنا دھما چو کڑی اتنی آ ر گنائز تھی کہ چوک کے عین درمیان میں سجے پروٹیسٹ سٹیج کے چاروں طرف کے راستوں کو رکشے ، ڈالے کھڑے کر کے اور رسیاں باندھ کر بند کر دیا گیا اور آ مدو رفت پر یہ پابندی اتنی تھی کہ موٹر سائیکل سوار سمیت کسی کو بھی آ نے جانے کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ عوامی احتجاج کے احترام میں ایمبو لینس کو بھی اپنا راستہ تبدیل کر نا پڑا یہ الگ بات کہ ایم پی اے کے مطالبہ کے باوجود ڈی ایس پی ٹریفک پولیس کا تبادلہ تو نہ ہوا لیکن” کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کا “کے مصداق ایم پی اے کے اس دھرنا پروگرام سے عوام اور ٹریفک سارادن ضرور بد حال و بے حال رہی۔
اس مقامی دھرنے کو چند ہی دن گذ رے تھے کہ ہمسایہ ضلع کے ایم این اے اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ گھوڑا چوک کو دھرنے سے سرفراز کر نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ لیہ تشریف لا ئے اور میاں صاحبان سمیت نا منصفانہ نظام ، کرپٹ پو لیس ، بد دیانت انتظا میہ کو وہ کھری کھری سنا ئیں کہ لو گوں نے تالیاں بجا بجا کر اپنے ہاتھ سرخ کر لئے ، انہوں نے ایک کمال مشورہ ہمارے ایم پی اے کو بھی دیا کہ اگر ان کی حکومت ان کی بات نہیں سنتی تو مستعفی ہو جائیں ۔ اب ان سے کو ئی پو چھے کہ صاحب آ پ کی بھی تو کوئی نہیں سنتا کیا آپ نے بھی کبھی ایسا کرنے کا سوچا ؟ کہتے ہیں نا کہ خربوزے کا دیکھ کر خر بو زہ رنگ پکڑتا ہے ان وی آ ئی پی دھرنوں کو دیکھ کر ہمارے جیسے عام لو گوں کے بھی پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو گیا ہمارے بائی پاس کے سادہ لوح دکاندار دوستوں کا خیال ہو گا کہ اگر انتظامیہ اور پو لیس ایم پی اے کا دھرنا برداشت کر سکتی ہے ، باہر سے آ ئے ہو ئے سیاستدان کے کو سنے سہہ سکتی ہے تو پھر ہمارے جینوین مسا ئل پر چیخ و پکار کرنے پر ہمیں کون کیا کہے گا ۔
ہوا ان توقعات کے بر عکس ، سر منڈاتے ہی اولے پڑنے لگے کے مصداق دھول مٹی اور گردو غبار سے ستائے احتجاج کرنے والے بارہ دکانداروں کے خلاف پو لیس نے مقد مہ درج کر کے قا نون کی زندگی اور عملداری کا بھر پور احساس دلایا کہ دھرنا دھرنا کھیلنا عوام اور عام آ دمی کا استحقاق نہیں یہ کھیل کھیلنے کے لئے پارلیمانی کلب کا ممبر ہو نا ضروری ہے۔
ملتان بائی پاس کے دکانداروں نے جس مسئلہ کو بنیاد بناکر اپنی آواز ارباب اقتدار تک پہنچانے کا جرم کیا وہ مسئلہ صرف ان کا نہیں لیہ میں بسنے والے سبھی شہریوں کا ہے ۔دھول اڑاتی مٹی سے بھری ٹرالیاں ، شوگر ملز کی کالک اور بھٹہ خشت کی چمنیوں سے اڑنے والے دھویں کے سیاہ بادل ماحول میں بد ترین فضائی آ لودگی پیدا کرنے کا بڑا سبب ہیں طبیب کہتے ہیں کہ اس قسم کی فضائی آ لودگی آنکھوں کی بیماریوں ، دمہ اور سانس جیسی موذی بیماریوں کا سبب بنتی ہے ، شا ئد یہی احساس تھا کہ ما ضی میں صدر تھانہ میں تعینا ت ہو نے والے پو لیس انسپکٹر عمر کھو سہ نے ٹرا لیوں میں بھری مٹی کو کو کپڑے سے ڈھانپنے کی مہم چلائی تا کہ دھول اڑاتی مٹی کی ٹرالیوں سے اڑتے گرد وغبار سے عام شہریوں کی آ نکھیں اور ماحول محفوظ رہے ۔
ہونا تو یہ چا ہیئے تھا کہ مقامی ضلعی انتظا میہ اور پو لیس حکام دکانداروں کے اس توجہ دلائو احتجاج پر نوٹس لیتے ہوئے گردو غبار اڑاتی مٹی کی ٹرالیوں پر کپڑے لپیٹنے کی پابندی کو یقینی بنانے کے اقدا مات کرتے لیکن ہوا روایات کے عین مطا بق اس کے برعکس ، قانون نافذ کر نے والے اداروں نے گھوڑا چوک پر دیئے گئے وی آ ئی پی دھرنوں کا غصہ ان بے چارے عام دکانداروں پر نکا لا اور یوں یہ احتجاجی دکاندار پو لیس مقد مہ کے نامزد ملزم بن گئے ۔ اب اسے قانون کی ستم ظریفی اور دوہرا پن ہی کہا جا سکتا ہے کہ گھوڑا چوک پر دھرنے دینے والے ممبران اسمبلی اور ان کے جاںنثار وں کا دھرنا تو انسانی بنیادی حقوق اور سیاسی استحقاق قرار پائے اور دھول مٹی اور گردو غبار سے ستائے دکانداروں کا بے نام احتجاج قابل گردن زنی ، اس سے بڑھ کر ہمارے ہاں مروج نظام کے نا منصفانہ ہو نے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔
تیری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی میرے نامہ اعمال میں تھی
یادش بخیر ہمارے ہاں ایک محکمہ انوائر منٹ کا بھی ہے جو ماحولیاتی آ لودگی کے خلاف اپنی آ ئینی اور قا نو نی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے ۔ گذ شتہ دنوں ڈاکٹر ظفر ملغانی سے بات ہو ئی تو کہنے لگے یا ر ماحول میں ایک عجیب سی بد بو کا احساس ہے ایسا لگتا ہے جیسے ہم گند گی کے ڈھیر اور گندے پانی کے جوہڑ وں کے عین بیچ سانس لے رہے ہیں ۔ بہت تلاش کیا لیکن مجھے اس بد بو کا مآ خذ نہیں ملا پتہ نہیں یہ انوائرمنٹ والے کیا کر رہے ہیں ۔ میں نے ادب سے جواب دیا صاحب کو ن سی بد بو اور کہاں کے گندگی کے ڈھیر ، بس یار تمہارا احساس ہے رہ گئے وہ انوائر منٹ والے۔۔ تو وہ سب وہی کچھ کر رہے ہیں جو دوسرے ڈیپارٹمنٹ والے کر رہے ہیں ۔ رہ گئی بدبو کے مآ خذ تو بھائی مجھ سمیت سب کو پتہ ہے کہ گندہ اور بد بودار پانی کہاں سے آ تا ہے مگر جب قانون یہ ہو جائے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو پھر کون بھینس کے آ گے بین بجائے۔