کتنی عجیب بات ہے پاکستان میں اپنے اقتدارکو دوام دینے کیلئے ہمیشہ سیاستدان جمہوریت کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں بعینہٰ مذہبی رہنما اسلام کا نام لیتے رہتے ہیں بیشترکی منزل اسلام کی بجائے اسلام آبادہی ہوتی ہے ان حیلہ بازیوں میں ہر حکمران نے قومی اداروںکو جیسے قومی فریضہ جانتے ہوئے کمزور سے کمزور ترکردیا اپوزیشن کے پیش ِ نظر بھی فقط اپنے مفادات کا حصول ہے وہ کبھی سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ،کبھی سیاسی بلیک میکنگ کے ذریعے اور کبھی مفاہمتی پالیسی کے تحت بہتی گنگا سے نہریں نکالتے رہے۔
اسے عجیب ترہی کہا جا سکتاہے کہ پاکستان میں ہونے والے ہر عام انتخابات میں دھاندلی کی گئی اس کے نتائج کو ہمیشہ شکست خوردہ سیاستدانوں نے تسلیم کرنے سے انکارکیا ایوب خان سے لیکر میاں نواز شریف کے عہد تک دھونس، دھاندلی، جھرلو اورچمک کی کتنی ہی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیںکبھی محترمہ فاطمہ جناح کوہرایا گیا ،کبھی محترمہ بے نظیر بھٹونے انتخابی دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی۔۔۔ کبھی میاں نواز شریف سراپا احتجاج بن گئے۔۔۔
کبھی انہیں اقتدار میں لانے کیلئے ijiبنائی گئی اور کبھی مسلم لیگ Qکی حکومت بنانے کیلئے بھرپور ریاستی وسائل استعمال کئے گئے اب عمران خان واویلا کررہے ہیں کہ انہیں ہرانے کیلئے منظم دھاندلی کی گئی ہے آج اندازہ لگایا جا سکتا ہے عسکری وسول اسٹیبلشمنٹ الزامات کی زدمیں ہے کہ اس نے اپنے منظور ِ نظر سیاستدانوںکو برسرِ اقتدار لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔کہا جاتاہے ایک ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف الیکشن کروائے تھے لیکن اس کے نتائج تسلیم ہی نہیں کئے گئے اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے فوجی ایکشن لینا مسئلہ کا حل سمجھ لیا گیا اگر جیتنے والی اکثریتی پارٹی کو اقتدار دیدیا جاتا تو شاید پاکستان دو لخت ہی نہ ہوتا جب بھی عقل کے فیصلے جذبات سے کئے جائیں تو ایسا ہی رزلٹ نکلے گا۔۔۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ 1973ء کے متفقہ دستورمیں فوجی ڈکٹیٹروں اور جمہوری حکمرانوں نے 18 ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا یہ بات طے ہے
آخری دو آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں کی گئیں بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر اثراندازہونا تھا تاکہ حسب ِ منشاء حکومتوںکی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی بات ہے تیسری باروزیر ِ اعظم بننا،حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنرکا تقرر،الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران حکومتوںکا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟ یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیںحقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے
حکمرانوں نے 1973ء کے متفقہ دستورمیںتمام ترامیم اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں یہ گیم اب تلک جاری ہے کسی کا مطمع ٔ نظرعوامی بھلائی نہیں اس کے نتیجہ میں حکمرانوںنے دولت کے انبار اکٹھے کرلئے اور عوام روٹی کے لقمے لقمے کو ترس رہے ہیںیہی اس ملک کا سب سے بڑاالمیہ ہے کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ عام آدمی کیلئے سوچ سکے آج ہمارا یہ حال ہے کہ اس قوم کا کوئی لیڈر ہی نہیں ہے حقیقی قیادت سے محروم۔۔۔پاکستانیوںکو ایک ہجوم ِ نابالغاں کہا جا سکتاہے۔۔
یہی محرومیاںفوجی ڈکٹیٹروںکی آمدکاسبب بنتی ہیں جب سول قیادت ویژن ،صلاحیت اور ذہانت سے عاری ہو جائیتو ایسے ہی حالات جنم لیتے ہیں قائد ِ اعظم نے جب پاکستان بنایا تو انہیں بھرپور عوامی تائیدحاصل تھی کانگریسی و احراری مولویوںکی لاکھ مخالفتوں کے باوجود پاکستان ایک حقیقت بن کر دنیا کے نقشے پرابھراجبکہ بعدمیں آنے والے حکمران بتدریج عوامی حمایت اور تائیدسے محروم ہوتے چلے گئے اورعسکری وسول اسٹیبلشمنٹ اور شخصیات مضبوط سے مضبوط۔ادارے کمزور۔۔یہاں عوام کے ساتھ ایک اور” واردات ” بھی کی گئی اشرافیہ پر مشتمل سیاستدانوں، بیوروکریسی، ججز،فوجی افسران، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے آپس میں رشتہ داریاں کرلیں۔۔
Tahir ul Qadri
کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو،حکمران کوئی بھی ہو اشرافیہ کو ۔۔کوئی فرق نہیں پڑتا ان کا کوئی نہ کوئی عزیز، رشتہ دار یادوست مسلسل حکومت میں رہتاہے۔۔دعوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں عمران خان اور طاہرالقادری مسلسل کہہ رہے ہیں وہ موروثی سیاست کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں ، تبدیلی ہمارامشن ہے،موجودہ سسٹم بدلیں گے لیکن بغورجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا ان کا اس سلسلہ میں کوئی ہوم ورک نہیں ہے اس وقت ملک کو مہنگائی ، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، کرپشن، بیروزگاری اور غربت جیسے جو چیلنجز درپیش ہیں اس کے بارے میں حکمت ِ عملی بھی واضح نہیں۔۔۔
حکمرانوںکو موجودہ سسٹم ہی سپورٹ کرتاہے اسی کی بقاء میں ان کی جان ہے JUI،اے این پی ،پیپلزپارٹی، بیشترمذہبی جماعتوں اور سابقہ صدر آصف علی زرداری سمیت کئی قومی رہنما موجودہ نظام کو بچانے کیلئے آخری حدتک جا سکتے ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تین تین بار اقتدارمیں آچکی ہیں لیکن عوام کی حالت پہلے سے بھی ابترہو چکی ہے سیاستدان نسل در نسل اقتدار اور وسائل پرقابض چلے آرہے ہیں حکمران خود تسلیم کرتے ہیں کہ پولیس کی ایک بڑی تعداد VIPکے پروٹوکول پرمامورہے یعنی جس ادارے کو عوام کی جان ومال کا تحفظ اورقانون کی حکمرانی کیلئے کام کرنا چاہیے وہ نان پروفیشنل کاموںمیں الجھ کررہ گیا ہے
اسی وجہ سے پولیس اپنی ذمہ داریوںمیں ناکام ہوگئی اور امن و امان کیلئے کراچی میں مستقل رینجرزکوطلب کیا گیابات یہیںپر ختم نہیں ہوئی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ سول انتظامیہ اور جمہوری حکومت ناکام ہوگئی ہے یہ جمہوریت کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پرکیا جارہاہے آج تبدیلی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں لانگ مارچ اور مہینوں طویل دھرنوں کے باوجود حکومت اور اس کے حلیفوںکا رویہ تو تبدیل نہیں ہو چوہدری سرورنے اسی لئے مستعفی ہونا پسندکیا یہی مسئلے کا اصل حل ہے
پر امن طریقہ سے تبدیلی آنی چاہیے محاذآرائی،جلائو گھیرائو سے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کا ملک ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس سے خانہ جنگی جیسی کیفیت پیداہونے کااحتمال ہے سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس نے آکٹوپس کی طرح ہر چیز کو جکڑ رکھا ہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے یہی بنیادی وجہ ہے کہ حکمران سیاست اور جمہوریت کے ساتھ ایک بار میری حکومت دوسری بار تیری حکومت کا کھیل کھیل رہے ہیں
حکمران اب بھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے حقیقی اقدامات کریںتو ان کی ساکھ بہترہونے کی امیدکی جا سکتی ہے اپوزیشن کو اس بات کاادراک ہونا چاہیے کہ موجود استحصالی نظام کے خلاف مربوط حکمت ِ عملی اورٹھوس منصوبہ بندی کے بغیربنیادی تبدیلی لائی ہی نہیں جا سکتی اس کیلئے اشرافیہ کا نیٹ ورک توڑنا ہوگا ورنہ آزادی مارچ اور پر امن جمہوری انقلاب کا نعرہ محض نعرہ ثابت ہوگا عمران خان اور طاہرالقادری کو شاید اندازہ نہیں اشرافیہ کس قدر طاقتور ہے؟ اس لئے غلطی کوئی گنجائش نہیں ہے سانپ اور سیڑھی کا کھیل شروع ہوگیاہے د عوے اور وعدے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عملاً کچھ نہ کیا گیا توسب کچھ بے کارہو جائے گا